میری ایک دوست نے ایک آن لائن کام شروع کیا ہے، جس میں کمپنی کی طرف سےآڈر دیا جاتا ہے کہ ان کو فیس بک آئی ڈی بنا کر دینی ہوتی ہے، اس کا پاسورڈ وہ خود مہیا کرتے ہیں اور ایک آئی ڈی بنانے کے 18 روپے ملتے ہیں، چوں کہ اس کام یعنی آئی ڈی بنانے میں پانچ منٹ یا اس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے، پھر ان سب کو ٹائپ کرکے ایک شیٹ پر درج کرکے کمپنی کو بھیجنا ہوتا ہے۔ آیا اس کام کی اجرت لے سکتے ہیں؟ اس میں کوئی انویسٹمنٹ نہیں کرنی ہوتی، کوئی دھوکہ دہی شامل نہیں ہوتی۔
صورتِ مسئولہ میں کمپنی کی طرف سے آرڈر پر جو آئی ڈی بنائی جاتی ہے اگر واقعۃ ً وہ جعلی، فیک نام اور معلومات والی آئی ڈی نہیں ہوتی تو اس طرح کی آئی ڈی بنانا اور اس پر اجرت لینا جائزہے، لیکن اگر یہ آئی ڈی جعلی و فیک نام، ڈیٹا اور معلومات پر مشتمل ہو تو ایسی آئی ڈی بنانا جھوٹ اور دھوکہ دہی کی بنا پر شرعا جائز نہیں، اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی حلال طیب نہیں ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم، قال ابن جرير : الإثم ترك ما أمر الله بفعله والعدوان مجاوزة ما حد الله لكم في دينكم ومجاوزة ما فرض الله عليكم في أنفسكم وفي غيركم".
(سورة المائدة، الآية:2، ج:3، ص:10، ط: دار الكتب العلمية)
مسند احمد میں ہے :
"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب".
(تتمة مسند الأنصار،حديث أبي أمامة الباهلي، ج:36، ص:504، ط: مؤسسة الرسالة)
المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:
10234 -"حدثنا أبو خليفة الفضل بن الحباب، ثنا عثمان بن الهيثم المؤذن، ثنا أبي، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من غشنا فليس منا، والمكر والخداع في النار".
(باب العين، باب، ج:10، ص:138، ط: مكتبة ابن تيمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144611100856
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن