بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فاسق اور بدعتی کی اقتداء میں نماز مکروہ ہونے کی دلیل


سوال

کیا دلیل ہے کہ فاسق اور بدعتی کے  پیچھے نماز مکروہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عبادات میں سے سب سے افضل عبادت نماز ہے اور نماز    میں لوگوں کا پیشوا اللہ تعالی کے آگے، اس شخص کو ہونا چاہیے جوکہ نمازیوں میں سب سے بہتر اور افضل ہو ، نماز وطہارت کے مسائل جانتا ہو، متقی پرہیز گار  اور متبعِ شریعت ہو، چنانچہ طبرانی کی ایک روایت ہے کہ" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی شخص کو ظہر کی نمار پڑھانے کے لیے بھیجا، تو اس شخص نے نماز پڑھانے کے دوران قبلہ کی طرف  تھوک پھینکا، عصر کی نمازکے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے شخص کو نماز پڑھانے بھیجا،  پہلے شخص کو خوف محسوس ہوا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا "یا رسول اللہ! کیا میرے متعلق کوئی وحی نازل ہوئی ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں! البتہ تم نے اپنے سامنے تھوک پھینکا  جبکہ تم  لوگوں کو نماز پڑھارہے تھے، تم نے اللہ اور فرشتوں کو تکلیف پہنچائی ہے"، نیزمستدرك  حاکم میں ایک روایت ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اگر تم چاہتے ہو کہ تمہار ی نماز اللہ کے یہاں قبول ہو، تو تم میں سے سب سے بہتر شخص نماز پڑھائے"،شارحینِ حدیث وفقہاء کرام نے  مذكوره احاديث كي روشني ميں  بدعتی (جس کے عقیدے میں شرک نہ ہو)اور فاسق وفاجر (جو  گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہو یا صغیرہ گناہوں پر اصرار کرتا ہو) کی اقتداء میں نماز پڑھنے کو مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے۔

اعلاء السنن میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه قال : أمر رسول صلي الله عليه وسلم رجلاّ يصلي بالناس الظهر،فتفل في القبلةوهو يصلي للناس، فلما كانت صلاةالعصر أرسل إلي آخر، فأشفق الرجل الأول،فجاء الي النبي صلي الله عليه وسلم فقال:يا رسول الله! انزل في شيء؟قال : لا! ولكنك تفلت بين يديك، وانت قائم تؤم الناس،فآذيت الله والملائكة." رواه الطبراني

قوله:"عن عبد الله ابن عمرو رضي الله عنه۔۔۔"الخ.قلت: فيه دلالة علي أن مرتكب المعصية لا يستحق الإمامة۔۔۔وأما كراهة الصلاة خلف الفاجر، فلاخلاف في ذالك،نص عليه في النيل، قال:وقد اخرج الحاكم في ترجمةمرثد الغنوى عنه صلي الله عليه وسلم:"ان سركم أن تقبل صلاتكم فليؤكم خياركم،فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم."

(كتاب الصلوة، باب صفات الإمام،ص:4،ص:227،ط:ادارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي)

فتاوی شامی میں ہے:

""و یکره إمامة العبد ... و مبتدع، أي: صاحب بدعة، و هي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ... لایکفر بها ... وإن کفر بها، فلایصح الاقتداء به أصلاً

(قوله:وهي اعتقادالخ ) عزا هذا التعریف في هامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معه عمل أو لا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقده ..."

(كتاب الصلوة، باب الامامة،ج:1،ص:560،ط:سعيد)

وفيه ايضاّ:

"ويكره إمامة۔۔۔وفاسق

(قوله وفاسق) من الفسق: وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، والزاني وآكل الربا ونحو ذلك، كذا في البرجندي إسماعيل.وفي المعراج قال أصحابنا: لا ينبغي أن يقتدي بالفاسق إلا في الجمعة لأنه في غيرها يجد إماما غيره. اهـ. قال في الفتح وعليه فيكره في الجمعة إذا تعددت إقامتها في المصر على قول محمد المفتى به لأنه بسبيل إلى التحول."

(كتاب الصلوة،ج:1،ص:560،ط:سعيد)

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"كره إمامة الفاسق، .... والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طاعة اﷲ تعالی بارتكاب كبیرة. قال القهستاني: أي أو إصرار علي صغیرة. (فتجب إهانته شرعاً فلایعظم بتقدیم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده كون الکراهة في الفاسق تحریمیة".

(ص:303، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں