بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عذاب قبر کب تک ہوگا؟


سوال

قبر کا عذاب قیامت تک ہوتا رہتا ہے یا 40 سالوں کے بعد اللہ پاک رحم فرما دیتے ہیں؟

جواب

اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک یہ مسئلہ متفقہ ہے کہ مرنے کے بعد عالم برزخ میں کفار، منافقین، اور بعض گنہگار مسلمانوں کو عذاب دیا جاتا ہے قرآن وحدیث اور تمام کتبِ کلام میں عذاب قبر کا ثبوت صراحتا ملتا ہے اسی طرح ہر شخص سے مرنے کے بعد تین سوالات ہوں گے۔ (۱): من ربك (۲): من نبیك (۳): ما دینك ہر ایک کو ان کا جواب دینا ہوگا جواب نہ دینے یا غلط دینے کی صورت میں قبر میں عذاب ہوگا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی تعلیم فرماتے تھے.

باقی رہی بات یہ کہ کس کو کس قسم کا عذاب ہوگا؟ تو اس کے متعلق اتنا سمجھ لیا چاھئیے کہ کافر اور منافق کا عذاب سب سے سخت ہوگا اور تاقیامت دائمی ہوگا اور بعض گناہگار مؤمنین کا عذاب گناہوں کے لحاظ سے مختلف ہوگا کیونکہ سزا جرم کی نوعیت کے اعتبار سے ہوتی ہے لیکن کافروں کے عذاب سے گناہگار مؤمنین کا عذاب بہر حال ہلکا اور آسان ہوگا۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: 

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيم(النساء آیت ۴۸) 

مسند أحمد مخرجا (42/ 258):

عن مسروق، عن عائشة، أن يهودية دخلت عليها، فذكرت عذاب القبر، فقالت لها: أعاذك الله من عذاب القبر. فسألت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عذاب القبر، فقال: «نعم، عذاب القبر حق» قالت عائشة: فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة بعد إلا تعوذ من عذاب القبر

شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور (ص: 181):

قال إبن القيم ثم عذاب القبر قسمان دائم وهو عذاب الكفار وبعض العصاة ومنقطع وهو عذاب من خفت جرائمهم من العصاة فإنه يعذب بحسب جريمته ثم يرفع عنه وقد يرفع عنه بدعاء أو صدقة أو نحو ذلك.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں