ہمارے یہاں ایک مولانا صاحب نے کچھ عرصہ پہلے دو بہنوں کا اکھٹا نکاح پڑھایا اور بارات الگ الگ جگہوں سے آئی تھی اور بڑی بہن "الف" کی نسبت "ز " لڑکے سے طے تھی جب کہ چھوٹی بہن "ث" کی نسبت "ج" لڑکے سے طے تھی، لیکن جب مولانا صاحب نے لڑکے سے قبول کروایا تو "ج" سے "الف" کا اور "ز" سے "ث" کا قبول کروایا، لیکن یہ صرف نام میں غلط فہمی ہوئی، جب کہ ان کے ذہن میں بڑی چھوٹی وہی تھی جو حقیقت میں ہیں اور جب رخصتی ہوئی تو دونوں لڑکوں کی ان ہی لڑکیوں کے ساتھ ہوئی جن کے ساتھ نسبت طے تھی، جب کہ نکاح کے وقت نام ادلے بدلے گئے تھے اور اس وقت ان کی شادی کو ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا اور ان کے پاس اولاد بھی تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟ براہ کرم تفصیلات سے آگاہ کر دیں !
صورتِ مسئولہ میں مولانا صاحب کا ایجاب وقبول کرتے ہوئے نام لینے میں غلطی کرجانے سے نکاح منعقد نہیں ہواہے دوبارہ نکاح پڑھوالیاجائے ،البتہ اس دوران پیداہونے والے بچوں کا نسب ثابت ہوگا۔
فتاویٰ شامي ميں ہے:
"غلط وكيلها بالنكاح في اسم ابيها بغير حضور ها لم يصح للجهالة۔
(قوله:لم يصح) ۔۔۔ وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها۔"
(كتاب النكاح(3/ 26)ط:ايچ ايم سعيد)
فتح القدير ميں هے:
"الاصل فيما اذا دخل الرجل علي غير امراته فدخل بها قال: عليه مهر لها لانه دخل بها بشبهة النكاح لان خبرالواحدحجة في المعاملات فيصير شبهة تسقط الحد ويجب المهر۔۔۔وعليها العدة ويثبت نسب ولدها منه۔"
(3/349، ط: ديوبند)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144408101227
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن