بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آئی برو بنانے کا حکم، عورتوں کے لیے بیوٹی پارلر چلانے کا حکم


سوال

آئی برو بنانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ میں پارلر چلاتی ہوں اور میں شرعی حدود میں رہتے ہوۓ کام کرنا چاہتی ہوں، لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر میں کسی کو تیار وغیرہ کروں اور وہ پردہ نہ کرے تو  مجھے گناہ تو نہیں ہوگا؟ لہذا مجھے بتایا جاۓ کہ آئی برو بنانا جائز ہے یا نہیں؟ چوں کہ اب تو  ویسے بھی آئی برو موٹی بنائی جاتی ہے  باریک دھاری نہیں بنائی جاتی، اگر کوئی عورت آئی برو بناتی ہو، لیکن باہر وغیرہ جاتے ہوۓ اسے چھپاتی ہو تو اس کے لیے آئی برو بنانا کیسا ہے؟

جواب

1-  واضح رہے کہ عورت کے لیے زینت حاصل کی غرض سے اَبرو کے اطراف سے بال اکھاڑ کر اَبرو کو خوبصورت کرنا جائز نہیں، اس پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے،  اسی طرح  دونوں ابرؤں کے درمیان کے بال زیب وزینت کے حصول کے لیے کتروانا بھی جائز نہیں،  البتہ اگر  اَبرو بہت زیادہ پھیلے ہوئے ہوں تو ان کو درست کرکے عام حالت کے مطابق   (ازالۂ عیب کے لیے )معتدل کرنے کی گنجائش ہے۔

حاشية رد المختار على الدر المختار (6/ 373) :

"( والنامصة إلخ ) ذكره في الإختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بُعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء.  وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب". 

2-  اگر  بیوٹی پارلر میں شرعی شرائط کالحاظ رکھاجاتاہو مثلاً: وہاں کاماحول غیر شرعی نہ ہو، مردوں سے بالکل اختلاط نہ ہو، پارلر صرف عورتوں کی زیب وزینت کے لیے مختص ہو،کسی ناجائز امرکا ارتکاب نہ ہوجیسے: عورتوں کے سر کے بالوں کا کاٹنا،غیر شرعی بھنویں بنوانا دوسروں سے ویکس کرانا وغیرہ،تو ان شرائط کے ساتھ بیوٹی پارلرکی اجازت ہوگی۔

واضح رہے کہ بیوٹی پارلر کے کام کو مطلق ناجائز تو نہیں کہا جاسکتا؛ کیوں کہ عورتوں کے لیے شریعت کے دائرہ میں رہ کر زیب و زینت اختیار کرنے کی شرعًا اجازت ہے اور اس میں کسی دوسری عورت کی مدد حاصل کرنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن موجودہ زمانہ میں  شرعی حدود کا خیال رکھنا مشکل ہے اور بیوٹی پارلر کا فتنوں کا سبب بننے کا  اندیشہ  ہے، لہٰذا کوشش کرنی چاہیے کہ یا تو اس کام سے بالکلیہ اجتناب کرلیا جائے یا اگر کرنا ہی ہے تو کم از کم محدود دائرہ کے اندر اندر کیا جائے؛ تاکہ کسی بھی قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکے۔ باقی اگر سائلہ شرعی حدود میں رہ کر کسی عورت کو تیار کرتی ہے اور وہ عورت خود بے پردہ ہوکر باہر نکلتی ہے، جب کہ سائلہ اس پر راضی نہیں ہے تو اس کا گناہ سائلہ کو نہیں ہوگا؛ کیوں کہ بے پردہ ہونے والی عورت خود مختار ہے، البتہ اگر سائلہ کو اندازا ہو تو اسے حکمت کے ساتھ نصیحت کرنی چاہیے۔

نیز اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے فتاوی بینات جلد چہارم، ص:403 تا 407 ،طبع مکتبہ بینات بنوری ٹاؤن ملاحظہ فرمائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں