بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایکسپائری کی تاریخ قریب آنے کی وجہ سے مذکورہ مال کو زکوۃ میں دینا جائزہے یا نہیں ؟


سوال

ایک شخص تاجرہے ،جو اپنا مال بیرونِ ملک سے خریدتاہے پھر پاکستان میں فروخت کرتاہے،یہ تجارت خوردنی اشیاء  میں ہے اورصورت یہ ہے کہ بیرونِ ملک سے جوس خریدتاہے مثلاً:4000 روپے سے  4200 تک میں  اوریہاں آگے بیچتاہے 5000یا 5200روپے تک ،اب سردیاں شروع ہونے کی وجہ سے اورایکسپائری کی تاریخ  قریب آنے کی وجہ سے فروخت کرنے کی قیمت میں کمی آتی ہے،تاخیر کے بقدرقیمت گھٹتی رہتی ہے،جیسے ابتداء  سردی میں قیمت 3000 ہزارتک اُترتی ہے ،اگر کچھ اوردن تقریباًایک مہینہ گزرجائےتو یہ قیمت مزید کم ہوکر 1500 تک رہ جاتی ہے ،لہذا مذکورہ تاجر یہ مال زکات میں دے سکتاہے ؟اگر دے سکتاہے تو کون سی قیمت کے حساب سے اپنی قیمتِ خرید سے یا عام فروخت والی قیمت ( 5000) سے یاکم ہونے والی قیمت کے حساب سے ،شریعت کی روشنی میں رہنمائی  فرمائیں۔

جواب

  صورت مسئولہ میں اگر تاجر مذکورہ مال کو زکوۃ  کے مد میں دے تودے  سکتاہے اور دیتے وقت قیمتِ فروخت کا اعتبارہوگا ،نیز ردی مال راہ خدامیں دینا ناپسندیدہ ہے، کیوں کہ قرآن کریم کا بیان ہے کہ:

"لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ آل عمران[92] 

ترجمہ:"تم خیرکامل کو کبھی نہ حاصل کرسکوگے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز کوخرچ نہ کروگےاورجو کچھ  بھی خرچ کروگے اللہ تعالی اُس کو بھی خوب جانتے ہیں۔"

(بيان القرآن)

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی  ہے:

"يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُواْ ٱلْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِـَٔاخِذِيهِ إِلَّآ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ ۚ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ."

"ترجمہ:اے ایمان والو! (نیک کام میں)خرچ کیا کرو عمدہ چیزکو  اپنی کمائی میں سے اوراُس  میں سے جو کہ  ہم نے  تمہارے  لئے زمین سے پیداکیا ہےاور ردی(ناکارہ) چیز کی طرف نیت مت لے جایاکرو کہ اُس  میں سے خرچ کردو حالانکہ  تم کبھی اُس کے  لینے  والے نہیں ،ہاں مگر چشم پوشی کرجاؤ( تواور بات ہے)اوریہ یقین کررکھو کہ اللہ تعالی کسی کے محتاج نہیں ،تعریف کے لائق ہیں ۔(بيان القرآن)

بہرحال ایمان والوں کی خصلت یہ ہے وہ عمدہ سے عمدہ اور اعلی سے اعلی مال نیٰکی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں،مذکورہ مال  اگر چہ زکوۃ میں دینا   جائز ہے اور ان پر ثواب بھی ملتا ہے مگر افضل یہ ہے کہ انسان اپنی محبوب اورپسندیدہ اشیا ء زکوۃ میں دے؛لہذا سائل مذکورہ مال زکوۃ کے مد میں دینے کے بجائے اعلی  مال   دے دے ۔

حاشیۃ ابن عابدین  میں ہے:

''(وجاز دفع القیمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق)، وتعتبر القيمة يوم الوجوب،وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح."

(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج:2،ص:286،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية."

( كتاب الزكاة،الفصل الثاني في العروض،ج:1،ص:179،ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144405100062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں