بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امتحان کی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے خودکشی کرنا


سوال

 میں ایف ایس سی کا طالب علم ہوں اور میرے والد مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں، لیکن اس سال میری تیاری نہیں ہے، اگر میں نے انہیں یہ بتایا تو وہ ناراض ہو جائیں گے اور صدمہ بھی ہوگا،  کیوں کہ وہ چھوٹے دل کے مالک ہیں ۔

میری رہنمائی فرمائیں مجھے خود کشی کے علاوہ  ذہن میں کچھ نہیں آ رہا،  میں ان کا اکلوتا بیٹا ہوں اور کوئی بیٹی بھی نہیں ہے،  وہ اپنے دوست احباب کے طعنوں کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ کیا یہ درست ہے ؟

جواب

واضح  رہے  کہ وقتی  پریشانی  سے نجات حاصل کرنے کے لیے خودکشی کا راستہ اختیار کرنا انتہائی بڑی غلطی ہے؛  کیوں کہ اپنے ہاتھ سے اپنی جان لینے کو ا للہ رب العزت نے حرام  قرار دیا ہے،  اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیح عمل پر سخت وعیدات بیان فرمائی ہیں۔ 

نیز  پریشانیوں  سے  نجات  حاصل کرنے  کے لیے خودکشی کرنا عقلاً بھی  غلط ہے؛ کیوں کہ دنیا کی پریشانی وقتی ہے جب کہ خودکشی کی صورت میں حاصل ہونے والی پریشانی دائمی ہے؛   پس  وقتی پریشانی  سے  چھٹکارے  کی  خاطر دائمی  عذاب کو اختیار کرنا   نہایت  کم عقلی کا عمل ہے، جب  کہ حقیقت اور  سچائی کا  راستہ  اختیار کرنے میں اللہ رب العزت نے نجات رکھی ہے، جیسا کہ   حدیث میں ہے: سچائی نجات دیتی ہے، اور جھوٹ ہلاک کردیتا ہے،نیز قرآن و حدیث میں سچائی کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، اور جھوٹ کی قباحت و نقصانات وارد ہوئے ہے،  لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر  آپ کے والد صاحب  وغیرہ امتحان کی تیاری کے حوالے سے پوچھیں اور اس سال آپ کی تیاری نہیں ہے،(  جیسا کہ موجودہ  حالات میں تمام طلبہ کی تعلیم کرونا کے سبب حقیقت میں  متاثر ہوئی ہے) تو  آپ   سچائی و  کا راستہ اختیار کرکے، حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے    اپنے والد صاحب سے اس حوالے سے بات کریں،  اور اگر خود بات کرنے کی ہمت نہ ہو تو والدہ کے ذریعہ انہیں تعلیمی نقصان سے آگاہ کریں، ان شاء اللہ وہ آپ کو تیاری کا موقع ضرور عنایت کریں دیں گے۔

نیز جس قدر ہوسکے محنت کریں اور امتحان میں شرکت کریں، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں، اور والدین سے بھی دعا کی درخواست کریں، اللہ تعالی آپ کے لیے راہیں  نکال دیں گے۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي هریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: من تردی من جبل فقتل نفسه، فهو في جهنم یتردی فیها خالداً مخلداً فیها أبداً، ومن تحسا سماً فقتل نفسه فسمه في یده یتحساه في نار جهنم خالداً مخلداً فیها أبداً، ومن قتل نفسه بحدیدة فحدیدته في یده یتوجأء بها في بطنه في نار جهنم خالداً مخلداً فیها أبداً. متفق علیه". (مشکاة ،٢ / ٢٩٩)

ترجمہ:حضرت  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا  رسول اللہ ۖ نے:  جو شخص خود کو پہاڑ سے گراکر ہلاک کرے گا تو وہ جہنم کی آگ میں خود کو پہاڑ  سے گراکر ہلاک کرتا رہے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ چلے گا، اور جس نے زہر کھاکر خود کو مار ڈالا تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جہنم کی آگ میں اور ہمیشہ ہمیشہ رہ کر ایسا ہی کرتا رہے گا اور جس نے دھاری دار تیز  چیز سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا تو وہ چیز اس کے ہاتھ میں ہوگی جہنم کی آگ میں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا رہے گا۔

’’صحیح مسلم ، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ ‘‘ میں ہے :

"عن عبدالله قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: الصدق یهدی إلی البر، وإن البر یهدي إلی الجنة، وإن الرجل لیصدق حتی یکتب صدیقاً، وإن الکذب یهدي إلی الفجور، وإن الفجور یهدي إلی النار، وإن الرجل لیکذب حتی یکتب کذاباً".

( رقم الحدیث: ٦٥٨، ط: دارالمعرفة بیروت لبنان)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں