بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں پر کاروبار میں پردہ لازمی ہے


سوال

ہم تجارتی ادارے چلاتے ہیں،ادارے میں کچھ عہدوں پر خواتین بھی فائز ہیں جن کو وقتًا فوقتًا سر ڈھاننپے اور پردے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ،لیکن اس کے  باوجود مرد و زن کا اختلاط اور بے پردگی کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں، اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان عہدوں پہ مردوں کو رکھا جائے تو کام کی کیفیت اور کوالٹی میں فرق آتا ہے اور تنخواہ پر بھی زیادہ خرچہ آتا ہے ۔

1. آیا صورتِ  مسئولہ میں ادارے کے ذمہ دار بھی گناہ گار ہوں گے یا نہیں ؟

2. اور اس صورت میں ادارے کی کمائی پر بھی کیا اثر پڑے گا؟

جواب

واضح رہےدینِ اسلام کی رو سے عورت کے لیے بلا ضرورت نوکری ،ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنا بالکل بھی پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ یہ بہت سی خرابیوں اور مفاسد کا باعث بنتا ہے، اسی لیے شریعتِ مطہرہ نے عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اس کے سرپرست پر رکھی ہے یعنی اگر وہ بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ اس کے اخراجات اٹھانا لازم ہے، اور اگر وہ ماں ہے تو   اولاد اس کے نان و نفقہ کی ذمہ دار ہے، اور اگر وہ بیوی ہے تو شوہر اس کے اخراجات کا ذمہ دار ہے، البتہ اگر کوئی مجبوری ہو  (مثلًا کوئی ایسا مرد نہ ہو جو کما کر عورت کی کفالت کرسکے) تو اس صورت میں اگر عورت مکمل پردہ کے ساتھ نوکری کے لیے گھر سے نکلے  تو اس کی گنجائش ہے، اور جہاں ملازمت کرتی وہاں  مردوں   کے ساتھ اختلاط  نہ  ہو،شریعتِ مطہرہ  میں  عورتوں کے لیے نا محرم مردوں کے ساتھ اختلاط کو  نا جائز  اور حرام   قرار دیا ہے۔

صورتِ مسئولہ   میں  ادارہ کی انتظامیہ کا پیسے بچانے  کی خاطر عورتوں کے لیے مردوں کے ساتھ مخلوط کام والی اسامیاں رکھنا ہی ناجائز ہے، مردوں کو رکھ کر اس کا بندوبست بھی ہوسکتا ہو،جیسا  کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے،لہذا ادارہ  کے ذمہ داران کا اپنے ملازمین کے ساتھ  خواتین کو مخلوط طریقے کے ساتھ کام میں لگا کراتنا کہہ دینا کہ سر ڈھانپ لیا کرو،شرعاًکافی نہیں ہے،  بلکہ مذکورہ  ادارہ تجارتی  نظام مردوں سے چلائے،اور اگر خواتین کا ہونا  واقعی ضروری   ہو تو ان کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے جہاں مردوں کا آنا جانا نہ ہو۔

باقی کمائی کو  حرام  نہیں کہا جاسکتا، البتہ  کراہت سے بہرحال خالی  نہیں ہوگی،ایسی کمائی خیر وبرکت سے خالی ہوگی۔

قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

" كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ " [سورة المائدة : 79]

ترجمہ:جو بُرا کا انہوں نے کر رکھا تھا اس سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے تھے، واقعی ان کا فعل بےشک بُرا تھا۔ (بیان القرآن)

مسند احمد میں ہے :

" عن علي رضي الله عنه،عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : لا طاعة لمخلوق في معصية الله عز وجل ."

(الجزء الثاني : ج 2 ، ص 333، ط : مؤسسة الرسالة)

ترجمہ :" اللہ تعالٰی کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ "

سنن ترمذی میں ہے:

" عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم : " إن أول ما دخل النقص على بنى إسرائيل كان الرجل يلقى الرجل، فيقول: يا هذا! اتق الله، ودع ما تصنع، فإنه لا يحل لك، ثم يلقاه من الغد، فلا يمنعه ذلك أن يكون أكيله، وشريبه، وقعيده، فلما فعلوا ذلك ضرب الله قلوب بعضهم ببعض". ثم قال: (لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ) إلى قوله (فَاسِقُونَ) ثم قال « كلا! والله لتأمرن بالمعروف، ولتنهون عن المنكر ولتأخذن على يدى الظالم، ولتأطرنه على الحق أطرا، ولتقصرنه على الحق قصرا."

(باب الأمر والنهي : ض 213، ج 4، ط : دار الکتاب العربي، بیروت)

ترجمہ: "عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "سب سے پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی، یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا تو کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور جو تم کر رہے ہو اس سے باز آ جاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے حلال نہیں، پھر اگلے دن اس سے ملتا تو وہ اپنی اسی سابقہ (منکر)حالت پر برقرار رہتا، اس کے باوجود اس کا ہم نوالہ ، ہم پیالہ اور ہم مجلس ہونے میں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی ۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی بعضوں کے دل کو بعضوں کے دل کے ساتھ ملا دیا " پھر آپ نے آیاتِ کریمہ"لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ﴿٧٨﴾كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٧٩﴾تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ﴿٨٠﴾وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ﴿٨١﴾"۔(سورہ المائدہ:78-81)۔ترجمہ: (بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے (78) آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وه کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وه بہت برا تھا (79) ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وه کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنے لیے آگے بھیج رکھا ہے وه بہت برا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور وه ہمیشہ عذاب میں رہیں گے (80) اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں کے اکثر لوگ فاسق ہیں(81)")۔ ـــــــــــ تک کی تلاوت کی، پھر فرمایا:" خبردار ! اللہ کی قسم ! تمہیں بالضرور نیکی کا حکم دینا ہو گا ، برائی سے روکنا ہو گا ، ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہو گا اور اسے حق پر لوٹانا اور حق کا پابند بنانا ہو گا ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں سے بعض کے دلوں کو بعض کے دلوں سے ملا دے گا، پھر تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان پر لعنت کی ہے۔ "

سنن ترمذی میں ہے:

" عن عقبة بن عامر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم، قال :" إياكم والدخول على النساء!" فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله! أفرأيت الحمو؟، قال: "الحمو الموت" قال: وفي الباب عن عمر و جابر و عمرو بن العاص، قال أبو عيسى: حديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح، وإنما معنى كراهية الدخول على النساء على نحو ما روي عن النبي صلى الله عليه و سلم، قال: "لا يخلون رجلا بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان" .

(باب کراهیة الدخول علی المغیبات: ص 474، 3ج، ط: دار إحیاء التراث العربي)

ترجمہ:"  حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورتوں کے پاس داخل ہونے سے پرہیز کرو ، ایک انصاری شخص نے عرض کیا:  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمو (یعنی شوہر کے بھائی اور عزیز واقارب) کے بارے میں  کیا ارشاد ہے؟  آپ نے فرمایا :’’حمو‘‘ تو موت ہے۔  اس باب میں حضرت عمر اور جابر، عمرو بن عاص سے بھی روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث حسن صحیح ہے، عورتوں کے پاس  جانے سے ممانعت کا مطلب اسی طرح ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ "

فتاوٰی شامی میں ہے:

" إلا من أجنبیة فلایحلّ مسّ وجهها وکفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ... وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبیة حرام ... ثم رأیت في منیة المفتي مانصه: الخلوة بالأجنبیة مکروهة وإن کانت معها أخریٰ کراهة تحریم ."

(فصل في النظر والمس: ص367، ج 6، ط: سعید)

فتاوی  بزازیہ علی ہامش الھندیہ میں ہے:

"ولا یأذن بالخروج إلی المجلس الذي یجتمع فیه الرجال والنساء ، وفیه المنکرات". 

(فتاوی  بزازیہ علی ہامش الھندیه،كتاب الكراهية, الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له ، ج:4، ص:156، ط:، رشیدیه)

كتاب الأصل میں ہے: 

    " أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء الإباحة. وقيل بأن أكثر الحنفية على هذا الرأي."

(الكتاب الأصل،الاجتهاد، ص:284، ط:دار ابن حزم، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"والأجرة ‌إنما ‌تكون في مقابلة العمل."

(کتاب النکاح ، باب المهر، ج:3، ص: 156، ط: دارالفکر)

تجرید قدوری میں ہے:

"ولأن أحكام ‌الأصل تسري إلى ما تولد منه، ولا تؤثر في كسبه."

 

(مسألة:603،ج:5،ص2450:،ط:دارالسلام)

بنايه شرح هدايه میں ہے:

"فأما فيما لا يتعين لما كان عند حقيقة الخبث لعدم الملك لا يثبت إلا شبهة الخبث، فعند شبهة الخبث وهي الخبث بسبب الفساد لو ثبت يثبت شبهة الشبهة، وذلك غير معتبر بالحديث، وما روى أنه -صلى الله عليه وسلم- «نهى عن الربا والريبة»، والريبة هي الشبهة، ولم يعتبر النازل عنها؛ لأن شبهة الشبهة لو كانت معتبرة لكانت دونها معتبرة أيضا، فإذن لا يكون البيع خاليا عما يشبه الشبهة فيؤدي حينئذ إلى انسداد باب التجارة وهو مفتوح، ولأن الأصل في ‌الكسب التوسعة، وقد عدل عن هذا الأصل في حق الشبهة فبقي ما انحط عنها على الأصل."

(کتاب البیوع ،فصل فی تقدیرالثمن، ج: 13، ص: 264، ط:الدراسات الإسلامية بجامعة أم القرى)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں