بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یورپ میں اسٹن کردہ گوشت کھانے کا حکم


سوال

جرمنی میں قربانی پہ کہا جاتا ہے کہ جانور کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس پر وہاں قانون ہے کہ اب جانور کو اِسْٹَن (ایک عمل جس میں جانور کو الیکٹرک شاک دے کر نیم بے حس و حرکت اور بے ہوش سا کردیتے ہیں) کرکے پھر ذبح کیا جاتا ہے۔ ذبح سے پہلے ایک ڈاکٹر یہ چیک کرتا ہے کہ جانور زندہ ہے یا مردہ۔ پھر اس جانور کو ذبح ترکی کے مسلمان قصائی کرتے ہیں۔ کیا ایسا گوشت کھانا ٹھیک ہے؟ کیونکہ دوسرے ممالک جیسے ترکی کا امپورٹڈ ذبیحہ گوشت ڈبل پیسوں میں ملتا ہے اور بہت دور دراز علاقوں سے ملتا ہے۔ مرغی کیلئے بھی ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مرغی بھی اسی اسٹن پراسیس کے بعد ذبح کی جاتی ہے۔ وہاں کے کچھ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مرغی کے پراسیس کے بعد زندہ بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں کیونکہ وہ کمزور جان ہوتی ہے۔۔ تو مرغی میں تو بہت زیادہ مشکوک معاملہ ہے۔  جلد رہنمائی فرمائیں!

جواب

مذکورہ بالاصورت میں اگر مذبح خانہ مسلمانوں کی نگرانی میں مسلمان ذابحین سے حلال زندہ  جانور ذبح کرواتا ہے لیکن ملکی قوانین کی وجہ سے اسٹننگ کا عمل کرتا ہے تو ایسی صورت میں وہ گوشت حلال تصور ہوگا  کیونکہ وہ ذبح کی بنیادی شرائط پوری کررہا ہے مثلًا:  حلال جانور کا ہونا، مسلمان ذابح کا ہونا، ذبح کرتے وقت تسمیہ پڑھنا اور جانور ذبح کرتے وقت اس کا زندہ ہونا۔ یاد رہے کہ اسٹننگ کا عمل مکروہ ہے؛ کیوں کہ  اس سے ہم جانور کو اضافی تکلیف دے رہے ہوتے ہیں، لیکن اسٹنگ کے تکلیف دہ عمل سے  حلال جانور کے گوشت کی حلت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، البتہ اگر خدانخواستہ جانور اسٹننگ کے نتیجہ میں ذبح ہونے سے پہلے مرگیا تو وہ مردار شمار ہوگا جو حرام ہے لہذا اس بات کی تصدیق ضرور کی جائے کہ  جس مذبح خانے میں یہ جانور ذبح ہوتے ہیں  آیا وہ مسلمانوں کی نگرانی میں کام کررہا ہے اور اسٹننگ کے بعد مسلمان نگران ذبح کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی طور پر معلوم کرتا ہے کہ  وہ جانور ذبح سے پہلے زندہ تھا تو اس صورت میں وہ گوشت حلال ہوگا، ورنہ حرام ہوگا۔ 

فتح القدیر للکمال بن الہمام میں ہے:

"قال: (و العروق التي تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم، والمريء، والودجان) لقوله عليه الصلاة والسلام: «أفر الأوداج بما شئت» وهي اسم جمع وأقله الثلاث فيتناول المريء والودجين، وهو حجة على الشافعي في الاكتفاء بالحلقوم والمريء، إلا أنه لا يمكن قطع هذه الثلاثة إلا بقطع الحلقوم فيثبت قطع الحلقوم باقتضائه، وبظاهر ما ذكرنا يحتج مالك ولا يجوز الأكثر منها بل يشترط قطع جميعها (وعندنا إن قطعها حل الأكل، وإن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة) وقالا: لا بد من قطع الحلقوم والمريء وأحد الودجين. قال - رضي الله عنه -: هكذا ذكر القدوري الاختلاف في مختصره. والمشهور في كتب مشايخنا - رحمهم الله - أن هذا قول أبي يوسف وحده. وقال في الجامع الصغير: إن قطع نصف الحلقوم ونصف الأوداج لم يؤكل. وإن قطع أكثر الأوداج والحلقوم قبل أن يموت أكل.

(قوله: و هي اسم جمع وأقله الثلاث فيتناول المريء والودجين وهو حجة على الشافعي في الاكتفاء بالحلقوم والمريء) قال في العناية: احتج الشافعي بأنه جمع الأوداج وما ثمة إلا الودجان، فدل على أن المقصود بها ما يحصل به زهوق الروح وهو بقطع الحلقوم والمريء لأن الحيوان لا يعيش بعد قطعهما أقول: يرد على هذا الاحتجاج أنه لو كان المقصود به مجرد ما يحصل به زهوق الروح لكفى قطع واحد من الحلقوم والمريء، إذ الحيوان لا يعيش بعد قطع أحدهما أيضا كما لا يخفى.

وقد أفصح عنه المصنف في تقرير دليل أبي حنيفة فيما بعد حيث قال: لأنه لا يحيا بعد قطع مجرى النفس أو الطعام، ومع أن الشافعي لم يقل بكفاية قطع أحدهما بل شرط قطعهما معا، وقال في العناية بعد ذكر الاحتجاج المزبور: وهو ضعيف لفظا ومعنى، أما اللفظ فلأن الأوداج لا دلالة لها على الحلقوم والمريء أصلا، وأما معنى فلأن المقصود إسالة الدم النجس، وهو إنما يحصل بقطع مجراه انتهى. أقول: ما ذكره في وجه ضعفه لفظا ليس بسديد، إذ قد ذكر في الاحتجاج المزبور وجه دلالة الأوداج على الحلقوم والمريء بأنه جمع الأوداج، وما ثمة إلا الودجان، فدل على أن المقصود بها ما يحصل به زهوق الروح وهو بقطع الحلقوم والمريء فلا معنى بعد ذلك لمجرد نفي دلالتهما عليهما ."

(کتاب الذبائح، کیفیة الذبح، ج:9، ص:494، ط:دارالفکر)

"من بلاد الإفرنج، فالذين كرهوه ذكروا لذلك سببين: أحدهما: أنه يوضع بينه شحم الخنزير إذا حمل في السفن. والثاني: أنهم لا يذكون ما نصنع منه الإنفحة، بل يضربون رأس البقر ولا يذكونهوأما الوجه الثاني: فقد علم أنه ليس كل ما يعقرونه من الأنعام يتركون ذكاته، بل قد قيل: إنهم إنما يفعلون هذا بالبقر، وقيل: إنهم يفعلون ذلك حتى يسقط، ثم يذكونه، ومثل هذا لا يوجب تحريم ذبائحهم، بل إذا اختلط الحرام بالحلال في عدد لا ينحصر ."

(الفتاوى الكبرى لابن تيمية ، تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد الله بن أبي القاسم بن محمد ابن تيمية الحراني الحنبلي الدمشقي (المتوفى: 728هـ) (479/1)، دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں