کیا اعتکاف میں کسی لڑکی کی تصویر دیکھنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے؟
اعتکاف کا مقصد دنیاوی امور سے یک سو ہو کر اللہ سے لو لگانا ہے، موبائل ،جاندار کی تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہیں،ان کودیکھنا ناجائز ہے، اس سے مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہے، اور اس کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لیے کہ مسجد عبادت کی جگہ ہے، نہ کہ گناہ کرنے کی، اور وقت کا ضیاع الگ ہوتا ہے، لہذا اعتکاف کے دوران موبائل استعمال کرنے،جاندارکی تصاویر اور ویڈیوز دیکھنےسے اگر چہ اعتکاف فاسد نہیں ہوتا، لیکن اس کی روح اور مقصد ضائع ہوجاتا ہے، اس لیے معتکف کو ( خواہ مردہو یا خاتون) چاہیے کہ وہ اس سے اجتناب کرے، اور اگر کوئی واقعی ضرورت نہ ہو تو اعتکاف کے دوران موبائل فون کا بالکل استعمال نہ کرے، اور دس دن یک سو ہوکر اللہ کی عبادت کرے، اگر جائز ضرورت ہو تو موبائل استعمال کرنے کی گنجائش ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وتکرہ التصاویر علی الثوب صلی فیہ أو لا، وھذہ الکراھۃ تحریمیۃ، وظاھر کلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علی تصویر الحیوان، وقال: سواء صنعہ لما یمتھن أو لغیرہ، فصنعتہ، حرام بکل حال؛ لأن فیہ مضاھاۃ لخلق اللہ تعالیٰ، وسواء کان في ثوب، أو بساط، أو دراھم، وإناء، أو حائط وغیرھا فینبغي أن یکون حراماً لا مکروھا، إن تثبت الإجماع أو قطعیۃ الدلیل بتواترہ."
(کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ،ج:2،ص:502،ط:سعید)
الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوری میں ہے:
"(قوله: ولا بأس أن يبيع ويبتاع في المسجد من غير أن يحضر السلعة) يعني ما لا بد منه كالطعام والكسوة لأنه قد يحتاج إلى ذلك بأن لا يجد من يقوم بحاجته إلا أنه يكره إحضار السلعة لأن المسجد منزه عن حقوق العباد وأما البيع والشراء للتجارة فمكروه للمعتكف وغيره إلا أن المعتكف أشد في الكراهة وكذلك يكره أشغال الدنيا في المساجد كتحبيل القعائد والخياطة والنساجة والتعليم إن كان يعمله بأجرة وإن كان بغير أجرة أو يعمله لنفسه لا يكره إذا لم يضر بالمسجد."
(کتاب الصوم،باب الاعتکاف،ج:1،ص:147،ط:المطبعة الخيرية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509102272
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن