بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استخارہ کا مطلب/ ثبوت/ وقت اور طریقہ کا بیان


سوال

استخارہ کا مطلب اور  ثبوت اور استخارہ کا طریقہ اوروقت بتادیں۔

جواب

استخارہ کا مطلب:

 استخارہ کا مطلب ہے کسی معاملہ میں اللہ تعالی سے خیر اوربھلائی طلب کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرکام میں استخارہ کرنے کی ترغیب  دی ہے، اور استخارہ نہ کرنے کو محرومی کا سبب قرار دیا ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"وعن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سعادة ابن آدم رضاه بما قضى الله له ومن شقاوة ابن آدم تركه استخارة الله ومن شقاوة ابن آدم سخطه بما قضى الله له" .

(مشکوۃ المصابیح،كتاب الرقاق،  باب التوكل والصبر، الفصل الثانی، رقم الحدیث:5303، ج:3، ص:1459، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:"  حضرت سعد بن  ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کیے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے،  اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے،اور  اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کرے۔"

استخارہ کا ثبوت:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کا طریقہ اس اہتمام سے تعلیم فرماتے تھے  جیسے  قرآنِ  کریم کی سورت یا آیت کا اہتمام فرماتے تھے،جیسے کہ مروی ہے:

"عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: " إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري - أو قال: في عاجل أمري [ص:346] وآجله - فيسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري - أو قال: في عاجل أمري وآجله - فاصرفه عني، واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني به، قال: ويسمي حاجته ".

(سنن الترمذي، کتاب الصلوۃ، ابواب الوتر، باب ما جاء في صلاة الاستخارة، رقم الحدیث:480، ج:2، ص:345، ط:شرکۃ مکتبۃ لمصطفی الحلبی)

ترجمہ:" حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے !"

استخارہ کا طریقہ:

استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت بشرط یہ کہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو، دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ ہو کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ، سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، استخارہ کی مسنون دعا یہ ہے:

'' اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُكَ بِعِلْمِكَ ، وَ أَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیْمِ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاقْدِرْهُ لِيْ، وَ یَسِّرْهُ لِيْ ، ثُمَّ بَارِكْ لِيْ فِیْهِ وَ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ ، وَاقْدِرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهٖ".

دعاکرتے وقت جب”هذا الأمر “پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”هذا الأمر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً: ”هذا السفر “ یا”هذا النكاح “ یا ”هذه التجارة “یا ”هذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”هذا الأمر“کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ۔

پھراستخارے کے بعد  جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے، اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔

استخارہ کا وقت:

استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ  ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یک سوئی کا ماحول ہو، اس وقت استخارہ کرکے سوجائے،  لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے،  اور اگر خواب آجائے تو کسی ماہر و متبعِ شریعت عالم سے رجوع کرلیا جائے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن سعد) أي: ابن أبي وقاص (قال: قال رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم -: " «من سعادة ابن آدم رضاه بما قضى الله له» ") أي: ومن سعادة ابن آدم استخارة الله ثم رضاه بما حكم به وقدره وقضاه كما يدل عليه مقابلته بقوله: (" ومن شقاوة ابن آدم تركه استخارة الله ") أي: طلب الخيرة منه، فإنه يختار له ما هو خير له، ولذا قال بعض العارفين: اترك الاختيار وإن كنت لا بد أن تختار أن لا تختار: {وربك يخلق ما يشاء ويختار} [القصص: 68] وقد قال تعالى: {وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا أن يكون لهم الخيرة من أمرهم} [الأحزاب: 36] ".

(كتاب الرقاق،  باب التوكل والصبر، الفصل الثانی،  ج:8، ص:3326، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"[تتميم] معنى فاقدره اقضه لي وهيئه، وفي الحلية: ويستحب افتتاح هذا الدعاء وختمه بالحمدلة والصلاة. وفي الأذكار أنه يقرأ في الركعة الأولى الكافرون، وفي الثانية الإخلاص. اهـ. وعن بعض السلف أنه يزيد في الأولى - {وربك يخلق ما يشاء ويختار} [القصص: 68]إلى قوله - {يعلنون} [القصص: 69]- وفي الثانية {وما كان لمؤمن ولا مؤمنة} [الأحزاب: 36] الآية. وينبغي أن يكررها سبعا، لما روى ابن السني «يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات، ثم انظر إلى الذي سبق إلى قلبك فإن الخير فيه» ولو تعذرت عليه الصلاة استخار بالدعاء اهـ ملخصا. وفي شرح الشرعة: المسموع من المشايخ أنه ينبغي أن ينام على طهارة مستقبل القبلة بعد قراءة الدعاء المذكور، فإن رأى منامه بياضا أو خضرة فذلك الأمر خير، وإن رأى فيه سوادا أو حمرة فهو شر ينبغي أن يجتنب."

(مطلب في ركعتي الاستخارة، ج:2، ص:27، ط:ايج ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں