بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

استنجاء کےبعد ہاتھ نہ دھونےسےہاتھ کےناپاک ہونےکاحکم


سوال

اگر واش روم جانے کے بعد ہاتھ نہ دھوتا ہو ،بلکہ نجاست کو ٹچ کرنے کے بعد بھی ہاتھ نہ دھوتا ہو تو اس کے ہاتھ پاک رہیں گے یا ناپاک ہو جائیں گے ؟اور اگر وہ کسی شخص سے مصافحہ کرے تو اس کے ہاتھ بھی پاک ہوں گےیا ناپاک؟

جواب

واضح رہےکہ استنجاء کے بعد ہاتھ دھونامستقل سنت ہے،اور یہی نظافت  اور فطرتِ سلیمہ کاتقاضا بھی ہے،البتہ استنجاء سے فراغت کے بعد اگر ہاتھ پر کوئی نجاست نہ لگی ہو تواستنجاء کرنےوالےکےہاتھ پاک  ہوں گے،اس کےساتھ مصافحہ کرنےسےمصافحہ کرنےوالےکےہاتھ بھی ناپاک نہیں ہوں گے،کیوں کہ عام طورپراستنجاء کرتےوقت جس طرح موضعِ استنجاء سےنجاست دورہوکروہ جگہ پاک ہوجاتی ہے،اسی طرح ہاتھ بھی دھل کرپاک ہوجاتاہے،لیکن اگرہاتھ پرواقعی کوئی نجاست لگی ہوئی ہو،وہ نجاست گاڑھی ہو(جیسےپاخانہ وغیرہ) اوراس کی مقدارایک درہم (ساڑھے چار ماشہ یعنی 4.35(چار اعشاریہ پینتیس) گرام وزن )سےزیادہ ہو،اگر وہ پتلی اور بہنے والی نجاستِ غلیظہ (جیسےپیشاب اور مذی وغیرہ)ہواوربقدرِ عرضِ کف یعنی ہتھیلی کےدرمیانی نشیبی حصےکےبقدرہوتوہاتھ ناپاک ہوگااوراس کا پاک کرناواجب ہوگا،اسی طرح جب ہاتھ میں نجاست ہواورہاتھ ناپاک ہوتوموضعِ استنجاء جہاں سےنجاست ہاتھ میں لگے،وہ جگہ بھی ناپاک رہےگی،لہٰذا خواہ مخواہ وہم میں مبتلانہیں ہوناچاہیے۔

باقی  عام حالت میں  کسی خشک نجاست کو چھونے کے بعد  اگر ہاتھ پر نجاست کا کوئی اثر منتقل نہ ہو تو اس  سے ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا، اسی طرح اگر کسی شخص کا ہاتھ ناپاک ہو، لیکن وہ خشک ہو تو دوسرے شخص کو ہاتھ ملانے سے دوسرے شخص کا ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا۔

"ردالمحتار"میں ہے:

"(و) البداءة (بغسل اليدين) الطاهرتين ثلاثًا قبل الاستنجاء وبعده، وقيد الاستيقاظ اتفاقي؛ ولذا لم يقل: قبل إدخالهما الإناء؛ لئلايتوهم اختصاص السنة بوقت الحاجة؛ لأن مفاهيم الكتب حجة.

(قوله: وقيد الاستيقاظ) أي الواقع في الهداية وغيرها تبعًا لحديث الصحيحين: «إذا استيقظ أحدكم من منامه فلايغمس يده في الإناء حتى يغسلها»، ولفظ مسلم: «حتى يغسلها ثلاثًا، فإنه لايدري أين باتت يده»، (قوله: اتفاقي) أي غير مقصود الذكر للاحتراز عن غيره. قال في العناية: خص المصنف يعني صاحب الهداية بالمستيقظ تبركًا بلفظ الحديث، والسنة تشمل المستيقظ وغيره، وعليه الأكثرون. اهـ. ومنهم من قال: إنه مقصود، وأن غسلهما لغير المستيقظ أدب، كما في السراج.
وفي النهر: الأصح الذي عليه الأكثر أنه سنة مطلقًا، لكنه عند توهم النجاسة سنة مؤكدة، كما إذا نام لا عن استنجاء أو كان على بدنه نجاسة، وغير مؤكدة عند عدم توهمها، كما إذا نام إلا عن شيء من ذلك أو لم يكن مستيقظًا عن نوم اهـ ونحوه في البحر (قوله: ولذا) أي؛ لكون القيد اتفاقيًا وأن الغسل سنة مطلقًا (قوله: بوقت الحاجة) أي إلى إدخالهما الإناء. ابن كمال، فيكون مفهومه أنه إذا لم يحتج إلى ذلك، بأن كان الإناء صغيرًا يمكن رفعه والصب منه لايسنّ غسلهما مع أنه يسنّ مطلقًا (قوله: لأن مفاهيم الكتب حجة) علة للتوهم: أي أنه لو قال ذلك لتوهم ما ذكر لأن إلخ".

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:110، ط:سعيد)

"اللباب في شرح الکتاب" میں ہے:

"(ومن أصابه من النجاسة المغلظة كالدم والبول) من غير مأكول اللحم ولو من صغير لم يطعم ( و الغائط والخمر) وخرء الطير لا يزرق في الهواء كذجاج و بط وإوز (مقدار الدرهم فما دونه جازت الصلاة معه: لأن القليل لا يمكن التحرز عنه؛ فيجعل عفواً، وقدرناه بقدر الدرهم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرهم (لم تجز) الصلاة، ثم يروى اعتبار الدرهم من حيث المساحة، وهو قدر عرض الكف في الصحيح، ويروى من حيث الوزن، وهو الدرهم الكبير المثقال، وقيل في التوفيق بينهما : إن الأولى في الرقيق، والثانية في الكثيف، وفي الينابيع : وهذا القول أصح،...

(وإن أصابته نجاسة مخففة كبول ما يؤكل لحمه) ومنه الفرس، ... (جازت الصلاة معه ما لم يبلغ ربع) جميع (الثوب) ... وقيل: ربع الموضع الذي أصابه كالذيل والكم و الدخريص، إن كان المصاب ثوبا. وربع العضو المصاب كاليد والرجل، إن كان بدناً وصححه في التحفة والمحيط والمجتبى والسراج، وفي الحقائق: وعليه الفتوى." 

(کتاب الطهارة، فصل في النجاسة، ص:68، ط: قدیمی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں