بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹیٹ ایجنٹ سے پلاٹ وغیرہ اپنے نام کروانے کا کام کرانا


سوال

میں مکان/پلاٹ کی خرید وفروخت کاکام کرتا ہوں،میرا کام کنسڑکشن کا ہے،پلاٹ خرید کر اور اس پر تعمیر کروا کر فروخت کردیتا ہوں،اکثر پلاٹ خریدتے وقت مجھے پلاٹ اپنے نام پر ٹرانسفر کروانا پڑتا ہے،اب اگر وہ پلاٹ میں خودK.D.Aسے ٹرانسفر کروانے جاؤں تو مجھےتین ماہ کا عرصہ لگ جا تا ہےاور مجھے تقریباً ہر دوسرے دنK.D.Aآفس بھی جانا پڑتا ہےاور گورنمنٹ کی طرف سے مقرر کردہ فیس بھی مختلف جگہوں پر ادا کرنی پڑتی ہے،جو تقریباً20ہزار روپے بنتی ہےاور اگر یہ کام میں اپنے علاقے میں موجود ایک اسٹیٹ ایجنٹ سے کرواؤں تو اس میں ایک سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے اور مجھے تقریباً 40 ہزار میں یہ ٹرانسفر پڑتی ہے،کیا یہ اضافی رقم جو میں اسٹیٹ ایجنٹ کے تھرو دیتا ہوں،یہ رشوت کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں؟

وضاحت:سائل کا اسٹیٹ ایجنٹ کے ساتھ یہ معاملہ طےہوتا ہے کہ اسٹیٹ ایجنٹ کہتا ہے کہ میں آپ کےنام پر پلاٹ وغیرہ ٹرانسفر کرادوں گا،اورشروع میں ہی اپنے کام کے پیسے متعین کردیتا ہے کہ میں اپنے کام کے مثلاً40ہزار روپے لوں گا،پھراس میں آگے اس کام کی جتنی فیس ادا کرنی ہوگی،اس کی ادائیگی اسی کے ذمہ ہوگی اور باقی جو پیسے بچیں گےوہ  اسی کے ہوں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً سائل کا اسٹیٹ ایجنٹ کے ساتھ یہ معاملہ طے ہوتا ہے کہ اسٹیٹ ایجنٹ سائل کو یہ کہتا ہے کہ میں آپ کے نام پر پلاٹ وغیرہ ٹرانسفر کرادوں گا اوروہ اپنے اس کام کےپیسے ابتداءً ہی متعین کرلیتا ہے،تواس معاملہ کی حیثیت اجارہ کی ہےاوراس اسٹیٹ ایجنٹ کی حیثیت ایک اجیر کی ہے، سائل اپنا کام کروانے پر اس اسٹیٹ ایجنٹ کو جو پیسے دیتا ہے،وہ اس اسٹیٹ ایجنٹ کا کمیشن/ اجرت/مزدوری شمار ہوگی،اس کا شمار رشوت میں نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية"

(كتاب الإجارة، الباب الأول، ج:4، ص:409، ط:رشيديه)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

تجوز إجارة الآدمي للخدمة أو لإجراء صنعة ببيان مدة أو بتعيين العمل بصورة أخرى، كما بين في الفصل الثالث من الباب الثاني، مفاده إنه لا بد في إجارة الآدمي من تعيين المنفعة إما بتعيين المدة و إما بتعيين العمل وإلا فالإجارة  فاسدة"

(الكتاب الثاني، الباب السادس، الفصل الرابع، المادة:562، ج:1، ص:239، ط:رشيديه)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"يلزم في الأجير المشترك بيان العمل والمنفعة بحيث ترتفع الجهالة بهما كل الارتفاع وتعلم المنفعة تارة ببيان المدة وأخرى بتسمية العمل فعليه تكون المنفعة التي هي شرط في استئجار أهل الصنعة كالخياط والنجار والطباخ والصباغ معلومة ببيان العمل. يعني بتعيين ما يعمل الأجير أو تعيين كيفية عمله. يعني المنفعة تارة تعلم ببيان المدة لما تقدم وتارة بمجرد التسمية بدون ذكر المدة"

(الكتاب الثاني، الباب الثاني، الفصل الثالث، المادة:455، ج:1، ص:507، ط:دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں