بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ کا حکم


سوال

ایزی پیسہ والے آفر دے رہے ہیں کہ کسی بھی دوسرے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں پیسے بھیجیں اور جب وہ دوسرا ان پیسوں سے اپنے لیے اسی دن موبائل لوڈ کرے تو آپ کو بھی 10% کیش بیک ملے گا ۔

1:  یہ سود ہے یا نہیں، جب کہ اس میں اکاؤنٹ میں پیسے رکھنے کی کوئی شرط نہیں ہے؟ 

2:  اگر کسی کے دو اکاؤنٹ ہوں اور وہ اپنے ایک اکاؤنٹ سے اپنے دوسرے اکاؤنٹ میں یہ پیسے منتقل کرے اور اسے وہ 10% کیش بیک ملے تو کیا یہ پیسے اس کے لیےاستعمال میں لانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

ایزی پیسہ اکاؤنٹ کے شرعی حکم سے متعلق ہمارے دارالافتاء سے تفصیلی فتوی جاری ہوا ہے، ذیل میں اس کو نقل کیا جاتا ہے، جس میں آپ کے سوالوں کے جواب بھی آجائیں گے:

"ایزی پیسہ اکاؤنٹ " ایک ایسی سہولت ہے جس میں آپ اپنی جمع کردہ رقوم  سے کئی قسم کی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں، مثلاً: بلوں کی ادائیگی، یا رقوم کا تبادلہ، موبائل وغیرہ میں بیلنس کا استعمال وغیرہ ۔ نیز تحقیق کرنے پر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کی پشت پر ایک بینک ہوتا ہے، "telenor micro-financing bank "، یہ بھی ایک قسم کا بینک ہی ہے کہ جس میں عام طور پر چھوٹے سرمایہ داروں  کی رقوم سود پر رکھی جاتی ہیں اور اس میں سے چھوٹے کاروباروں کے لیے سود پر قرض بھی دیا جاتا ہے۔

اس کی فقہی حیثیت یہ ہے کہ اس اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے، اور  چوں کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے؛ اس لیے اس قرض کے بدلے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سہولیات وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، لہذا   کمپنی  اکاؤنٹ ہولڈر کو اس مخصوص رقم جمع کرانے کی شرط پر  یومیہ فری منٹس اور میسیجز وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے یا رقم کی منتقلی پر ڈسکاؤنٹ وغیرہ دیتی ہے یا ایزی لوڈ پر کیش بیک دیتی ہے تو  ان کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا درحقیقت  قرض ہے، اور  قرض دینا تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن کمپنی اس پر جو  مشروط منافع دیتی  ہے، یہ  شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ قرض پر شرط لگا کر نفع  کے لین دین  کو نبی کریم ﷺ نے سود قرار دیا ہے۔ (مصنف بن أبی شیبہ، رقم:۲۰۶۹۰ )

 نیز   چوں کہ اس صورت  میں  مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ناجائز معاملے کےساتھ مشروط ہے ؛ اس لیے یہ اکاؤنٹ کھلوانا یا کھولنا  بھی جائز نہیں ہوگا۔

اگر کوئی ’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ‘‘  کھلواچکاہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ جلد از جلد مذکورہ اکاؤنٹ ختم کروائے اور صرف اپنی جمع کردہ رقم واپس لے سکتاہے، یا صرف جمع کردہ رقم کے برابر استفادہ کرسکتاہے، اس رقم پر ملنے والے اضافی فوائد حاصل کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہوں گے۔ 

اور اگر  کوئی کمپنی ایزی پیسہ اکاؤنٹ  کھلوانے کو اس ناجائز معاملہ کے ساتھ مشروط  نہ کرے، یعنی مخصوص رقم رکھوانے  کی شرط کے بغیر ہی کھولا جائے،  یا کمپنی نے از خود کھول دیا ہو تو  پھر رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور دیگر اس طرح کے جائز کاموں کےلیے  اس اکاؤنٹ کا استعمال جائز ہوگا، اس صورت میں اس اکاؤنٹ کے استعمال کی صورت میں اگر کوئی رعایت یا کیش بیک ملتا ہے تو اس  کے حکم میں یہ تفصیل ہوگی کہ اگر وہ کیش بیک اور رعایت اس جگہ سے مل رہی ہو جہاں سے خریداری وغیرہ کی گئی ہو  تو یہ ان کی طرف سے تبرع ہوگا، اور اس کا استعمال جائز ہوگا، اور اگر یہ رعایت ایزی پیسہ کمپنی یا اس کی پشت پر موجود  بینک کی طرف سے مل رہی ہے تو  پھر اس رعایت کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس بارے میں معلومات کرلی جائیں، اور (اس صورت میں یعنی جب کہ اکاؤنٹ کھلوانا ناجائز معاملے کے ساتھ مشروط نہ ہو) جب تک معلومات نہ ہوں ان کیش بیک اور سہولیات کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔

اور اگر کوئی کمپنی ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانے کو مخصوص رقم جمع کرانے سے بھی مشروط نہ کرے، اور رقم جمع کرنے پر اضافی رقم یا سہولیات وغیرہ بھی نہ دے، بلکہ رقوم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی یا لوڈ کرنے کی حد تک سہولیات ہوں تو ایسا اکاؤنٹ کھلوانا اور اس سے استفادہ کرنا جائز ہوگا۔ 

واضح رہے کہ ’’ایزی پیسہ‘‘ کے نام سے جو معروف کمپنی اکاؤنٹ کھولتی ہے، اس میں عموماً رقم رکھنے کی شرط ہوتی ہے، سائل کا یہ کہنا کہ ’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ‘‘ میں رقم رکھنے کی شرط نہیں ہوتی، محلِ تردد ہے، (ایک آدھ کمپنی اکاؤنٹ کھول کر مذکورہ سہولیات غیر مشروط دیتی ہے، لیکن اس کا  اکاؤنٹ ’’ایزی پیسہ‘‘ کے نام سے نہیں ہوتا)  تاہم اگر واقعۃً یہ بات درست ہو  تو ایسا اکاؤنٹ کھولنا اور اس سے رقوم کی منتقلی، لوڈ کرنے اور بلز کی ادائیگی کی سہولیات سے استفادہ کرنا جائزہوگا، البتہ اس پر ملنا والا کیش بیک اگر ایزی پیسہ کمپنی یا اس کی پشت پر موجود  بینک کی طرف سے مل رہا ہو تو  پھر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس بارے میں معلومات کرلی جائیں، اور  جب تک معلومات نہ ہوں ان کیش بیک اور سہولیات کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔

"فتاوی شامی" میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن". (5/166، مطلب کل قرض جر نفعًا، ط: سعید)

"اعلاء السنن"میں ہے: 

" قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادة  أو هدیة فأسلف علی ذلك، إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".  (14/513، باب کل قرض جر  منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارة القرآن)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں