بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کینیڈا کی بعض ریاست میں عشاء کی نماز بارہ بجے کے بعد پڑھنے کا حکم


سوال

یہاں کیلگری کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کے لیے جو نماز کے نظام الاوقات آن لائن موجود ہیں، ان میں سے ایک اسلامک سوسائیٹی آف نارتھ امریکہ کے اوقات الصلوۃ ہیں،  جس میں فجر کی نماز کا وقت 2:58ہے،  اورعشاء کا وقت 12:12 دیا ہوا ہے، رات کے بارہ بجے کے بعد تو دوسرا دن شروع ہوجاتا ہے تو بارہ بجے کے بعد جو نماز ہوگی،  وہ پچھلے دن کی عشاء کی نماز کیسے ہوگی؟ ہمارے لئے یہ بڑی الجھن والی بات ہے،  برائے مہربانی اسکی توجیہ سے آگاہ فرمائیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ہماری معلومات کے مطابق کینیڈا کے شمالی علاقات جات میں گرمیوں میں یعنی جون کے مہینے میں سورج غروب ہونے کے بعد شفقِ احمر بہت دیر تک یعنی تقریباً سوا  چار گھنٹہ تک رہتا ہے، جس کی وجہ سے  مغرب کا وقت اتنا لمبا ہوجاتا ہے کہ آدھی رات ہی اکثر مغرب کے وقت میں گزر جاتی ہے،اور عشاء کی نماز مختلف اوقات میں رات بارہ بجے کے بعد ہوتی ہے، لہذا عشاء کا جو وقت ہے، اسی وقت میں عشاء کی نماز ادا کرنا چاہیے۔

باقی یہ اشکال کہ بارہ بجے کے بعد عشاء کی نماز ہونے سے یہ اگلے دن کی نماز ہے، تو  واضح رہے کلام عرب میں ”دن” کو "یوم" سے تعبیر کرتے ہیں، اور اہلِ  لغت یوم کے کئی معانی بیان کرتے ہیں، جس میں سے دو معنی مشہور ومعروف ہے۔

جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1: یوم (دن) سے لیل (رات) کے مقابل زمانہ مراد ہو، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے کہ "آپﷺ نے فرمایا: جس نے ایک دن اللہ تعالیٰ کی راہ میں روزہ رکھا، تواللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرمادیتے ہیں"۔

(صحيح البخاري، باب فضل الصوم في سبيل الله، ج:4، ص:26، ط:دارطوق النجاة)

اور  اس اعتبار سے یوم کا اطلاق صبح صادق طلوع ہونے سے لیکر سورج غروب ہونے تک کے زمانہ پر ہوتا ہے،  اسکو اہل شرع یومِ شرعی  کہتے ہیں۔

2: یوم سے دن اور رات کے چوبیس گھنٹے کا زمانہ مراد ہو، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے کہ " آپﷺ نے فرمایا: بلاشبہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔"

(صحيح البخاري، باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم نساءه في غير بيوتهن، ج:7، ص:32، ط:دارطوق النجاة)

اس اعتبار سے یوم سورج غروب ہونے کے بعد سے شروع ہوکر اگلے دن سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے، اور سورج غروب ہوتے ہی اگلا دن شروع ہوجائےگا،  اس کو اہلِ حساب یومِ فلکی  کہتے ہے۔

اب اگر یوم سے مراد یومِ شرعی ہو، تو اس دن کی پہلی نماز نمازِ فجر ہوگی اور یوں دن کی کل تین نمازیں(فجر، ظہر، عصر) اور رات کی دو نمازیں(مغرب، عشاء) فرض شمار ہوگی، اور رات کا آخری وقت صبح صادق ہوگا، اور اگر یوم (دن) سے یومِ فلکی مراد لیا جائے تو اس دن کی پہلی نماز نمازِ مغرب  ہے، اور یوں پانچ فرض نمازیں اسی  دن کی شمار کی جائےگی۔

تاج العروس من جواهر القاموس میں ہے:

"ي و م . (اليَوْمُ : م ) مَعْرُوفٌ ، مِقْدَارُهُ مِنْ طُلُوعِ الشَّمْسِ إِلَى غُرُوبِهَا ، أوْ مِنْ طُلُوعِ الفَجْرِ الصَّادِقِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ ، ذَكَرَهُ ابنُ هِشَامٍ في شَرْحِ الكَعْبِيَّةِ ، والأخِيرُ : تَعْرِيفٌ شَرْعِيٌّ عند الأكْثَرِ ، وشَاعَ عِنْدَ المُنَجِّمِينَ أنَّ اليَوْمَ مِنَ الغُرُوبِ إلى الغُرُوب ، نَقَلَهُ شَيْخُنَا ، ويُسْتَعْمِلُ بِمَعْنَى مُطْلَقِ الزَّمَانِ ، نقَلَهُ ابنُ هِشَامٍ . قُلْتُ : حَكَاهُ سِيبَوَيْهِ في قولِهِمْ : أَنَا اليَوْمَ أفْعَلُ كَذا ، فإنَّهُمْ لا يُريدُونَ يوْمًا بِعَيْنِهِ ، ولكنهم يُرِيدُونَ الوَقْتَ الحَاضِرَ ، وبِهِ فَسَّرُوا قَوْلَهُ تَعَالَى :< اليوم أكملت لكم دينكم > وَذلِكَ حَسَنٌ جَائِزٌ ، فَأمَّا أنْ يَكُونَ دِينُ اللهِ في وقْتٍ مِنَ الأَوْقَاتِ غَيْرَ كَامِلٍ فَلاَ ، وقَدْ يُرادُباليَوْمِ الوَقْتُ مُطْلَقًا ، ومنْهُ الحَديثُ : ' تلكَ أيَّامُ الهَرْجِ  أي : وَقْتُهُ ، ولاَ يَخْتَصُّ بالنَّهَارِ دُونَ اللَّيْلِ".

(المادة:ي، و، ي، م، ج:34، ص:143، ط:دارالهداية)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"(وأول وقت المغرب) (إذا غربت الشمس) (وآخر وقتها) (ما لم يغب الشفق) وقال الشافعي - رحمه الله -: مقدار ما يصلى فيه ثلاث ركعات لأن جبريل - عليه السلام - أم في اليومين في وقت واحد.ولنا قوله - عليه الصلاة والسلام - «أول وقت المغرب حين تغرب الشمس وآخر وقتها حين يغيب الشفق» وما رواه كان للتحرز عن الكراهة (ثم) الشفق هو البياض الذي في الأفق بعد الحمرة عند أبي حنيفة - رحمه الله -، وقالا: (هو الحمرة) وهو رواية عن أبي حنيفة وهو قول الشافعي - رحمه الله - لقوله - عليه الصلاة والسلام - «الشفق الحمرة» ولأبي حنيفة - رحمه الله - قوله - عليه الصلاة والسلام - «وآخر وقت المغرب إذا اسود الأفق» وما رواه موقوف على ابن عمر - رضي الله عنهما - ذكره مالك - رحمه الله - في الموطأ، وفيه اختلاف الصحابة".

(وأول وقت العشاء إذا غاب الشفق، وآخر وقتها ما لم يطلع الفجر الثاني) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «وآخر وقت العشاء حين يطلع الفجر» .فبخروج وقت المغرب يدخل وقت العشاء اتفاقا، ولا صحة لصلاة قبل الوقت، فالاحتياط في التأخير.

وأما الحديث الذي ذكره في آخر وقت العشاء أنه ما لم يطلع الفجر فقيل لم يوجد في شيء من أحاديث المواقيت ذلك، وملخص كلام الطحاوي أنه يظهر من مجموع الأحاديث أن آخر وقت العشاء حين يطلع الفجر، وذلك أن ابن عباس وأبا موسى والخدري - رضي الله عنهم - رووا «أنه - صلى الله عليه وسلم - أخرها إلى ثلث الليل» ، وروى أبو هريرة وأنس أنه أخرها حتى انتصف الليل، وروى ابن عمر أنه أخرها حتى ذهب ثلثا الليل.

وروت عائشة - رضي الله عنها - «أنه أعتم بها حتى ذهب عامة الليل» ، وكلها في الصحيح.

قال فثبت أن الليل كله وقت لها، ولكنه على أوقات ثلاثة، إلى الثلث أفضل، وإلى النصف دونه، وما بعده دونه، ثم ساق بسنده إلى نافع بن جبير قال: كتب عمر - رضي الله عنه - إلى أبي موسى الأشعري: وصل العشاء أي الليل شئت ولا تغفلها".

(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:222، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144310101435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں