بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء اور وتر کی نماز کی قضا اور ان میں ترتیب کی رعایت


سوال

عشاء  کی قضا میں فرض کے ساتھ وتر کا ادا کرنا بھی ضروری ہے،  اگر کسی کے ذمے  عشاء  کی ہزار نمازیں قضا ہیں تو وہ کیا اس طرح کرسکتا ہے کہ پہلے فرض مکمل کر لے پھر وتر؟

جواب

 جس طرح فرض نماز  کی قضا ضروری ہے، اسی طرح وتر کی قضا بھی ضروری ہے، اور صاحبِ  ترتیب  (جس کی  ذمے  چھ فرض نمازیں قضا نہ ہوں) کے لیے   جس طرح فرائض میں ترتیب لازم ہے، اسی طرح فرض اور وتر میں بھی ترتیب لازم ہے، البتہ غیر صاحب ترتیب  (جس کی  چھ یا اس سے زیادہ نمازیں قضا ہوچکی ہوں) کے فرضوں یا فرض اور وتر کے درمیان ترتیب ساقط ہوجاتی ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر کسی ذمے  میں  مثلًا ایک ہزار   عشاء  کی نمازیں  قضا ہیں تو اس پر عشاء  کی قضا   کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنا ضروری ہے،  البتہ وہ پہلے سب عشاء اور اس کے بعد سب وتر بھی ادا کرسکتا ہے۔

تاہم قضا  نماز کی نیت  میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا  پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں،البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی عشاء  کی نمازیں میں نے قضا  کی ہیں ان میں سے پہلی  عشاء  کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی وتر   کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی وتر   کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 68):

" (أو فاتت ست اعتقادية) لدخولها في حد التكرار المقتضي للحرج (بخروج وقت السادسة) على الأصح ولو متفرقة

(قوله: أو فاتت ست) يعني لا يلزم الترتيب بين الفائتة والوقتية ولا بين الفوائت إذا كانت الفوائت ستا، كذا في النهر. أما بين الوقتيتين كالوتر والعشاء فلا يسقط الترتيب بهذا المسقط كما لا يخفى ح. وأطلق الست فشمل ما إذا فاتت حقيقة أو حكما كما في القهستاني والإمداد.

ومثال الحكمية ما إذا ترك فرضا وصلى بعده خمس صلوات ذاكرا له فإن الخمس تفسد فسادا موقوفا كما سيأتي؛ فالمتروكة فائتة حقيقة وحكما والخمسة الموقوفة فائتة حكما فقط. وذكر في الفتح والبحر أنه لو ترك ثلاث صلوات مثلا الظهر من يوم والعصر من يوم والمغرب من يوم ولا يدري أيتها أولى. قيل يجب الترتيب بين المتروكات ويصليها سبعا، بأن يصلي الظهر ثم العصر ثم الظهر لاحتمال أن يكون ما صلاه أولا هو الآخر فيعيده ثم يصلي المغرب ثم الظهر ثم العصر ثم الظهر لاحتمال كون المغرب أولا فيعيد ما صلاه أولا. وقيل يسقط الترتيب بينهما فيصلي ثلاثا فقط، وهو المعتمد لأن إيجاب الترتيب فيها يلزم منه أن تصير الفوائت كسبع معنى أنه يسقط بست فبالسبع أولى اهـ ملخصا، وتمامه هناك وللشرنبلالي في هذه المسألة رسالة.

(قوله: اعتقادية) خرج الفرض العملي وهو الوتر، فإن الترتيب بينه وبين غيره وإن كان فرضا لكنه لا يحسب مع الفوائت. اهـ. ح أي لأنه لا تحصل به الكثرة المفضية للسقوط لأنه من تمام وظيفة اليوم والليلة، والكثرة لا تحصل إلا بالزيادة عليها من حيث الأوقات أو من حيث الساعات، ولا مدخل للوتر في ذلك، إمداد.

(قوله: لدخولها في حد التكرار إلخ) لأنه يكون واحد من الفروض مكررا، فيصلح أن يكون سببا للتخفيف بسقوط الترتيب الواجب بينها أنفسها وبينها وبين أغيارها درر إذ لو وجب الترتيب حينئذ لأفضى إلى الحرج" . 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76):

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں