بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائیوں کے برتنوں میں کھانا کھانے کا حکم


سوال

 کیا وہ برتن جس میں عیسائی کھانا کھالے یاوہ کپ جس میں عیسائی چائے پی لے، تو کیا مسلمان وہ برتن استعمان کرسکتا ہے؟ جب کہ دل نہیں مانتا اور وہ تو شرک بھی کرتے ہیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کا کیا جواب ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  ہر انسان چاہے کافر ہو یا مسلمان اس کاجھوٹا فی نفسہ پاک ہے، جب تک کوئی ناجائز اور حرام چیز اس کے منہ کو نہ لگی ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر عیسائی نے  برتن  میں کوئی ناپاک چیزمثلاً شراب ،خنزیریاکوئی اورحرام  چیزنہ کھائی  گئی ہوتواس برتن کو استعمال کرسکتے ہیں اوراگروہ برتن کسی  ناپاک یاحرام چیز کے لیے استعمال کیاگیا ہوتوجب تک  اس  برتن کو خوب اچھی طرح دھوکرپاک نہ کرلیا جائے اس وقت تک اس برتن کا استعمال ناجائز ہے،احتیاطاًعام احوال میں بھی  ان برتنوں کو دھو  کر ہی استعمال کرنا بہتر ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما."

(کتاب الکراهية، ج:5، ص:347، ط: رشيدية)

المحیط البرھانی میں ہے: 

"أما الطاهر الذي لا كراهة فيه سؤر الآدمي وسؤر ما يؤكل لحمه سوى الدجاجة المخلاة، أما سؤر الآدمي فلما روي أن رسول الله عليه السلام «أتي بعسل من لبن فشرب بعض وناول الباقي أعرابيا كان على يمينه فشربه ثم ناول أبا بكر فشربه» ، ولأن عين الآدمي طاهرة لا كراهة فيه إلا أنه لا يؤكل لكرامته ولعابه متولد من عينه، فإذا كان عينه طاهر من غير كراهة كان سؤره طاهرا من غير كراهة أيضا، ويستوي فيه المسلم والكافر عندنا. وقال الشافعي: سؤر الكافر نجس؛ لأن عين الكافر نجس، قال الله تعالى: {إنما المشركون نجس} (التوبة: ٢٨) فإذا كان عينه نجسا كان لعابه نجسا فيكون سؤره نجسا...وإنا نقول: عين الكافر ليس بنجس، ألا ترى أن وفد بني ثقيف أنزلوا في مسجد رسول الله عليه السلام وكانوا مشركين، ولو كان عين الكافر نجسا لما أنزلوا في المسجد..والآية محمولة على نجاسة اعتقادهم، لا على نجاسة أعضائهم، ونجاسة الاعتقاد لا تؤثر في نجاسة الأعضاء."

 (‌‌كتاب الطهارات، الفصل الرابع في المياه التي يجوز التوضؤ بها، ج:1، ص:124، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں