بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ کی ایک روپیہ گیم کا حکم


سوال

ایزی پیسہ کمپنی نے ایک آفر نکالی ہے "ایک روپیہ گیم" جس میں کمپنی انعام میں ایک قیمتی گھڑی  یا قیمتی موبائل رکھتی ہے، کسٹمر کمپنی کی طرف ایک روپیہ سینڈ کرتے ہیں، جس کا  انعام نکلتا ہے وہ قیمتی گھڑی یا موبائل اس کو مل جاتا ہے، اور جن کا انعام نہیں نکلتا ، کمپنی ان کو وہ ایک روپیہ  واپس کردیتی  ہے، اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ قمار (جوا)  میں شامل ہے یا نہیں ہے، جب کہ عرف میں ”جوا“  اس کو کہتے ہیں  جس میں پیسہ واپس نہ ملتا ۔

جواب

 ''جو ا''  ہر اس  معاملہ كو كہتے ہیں  جس میں’’مخاطرہ ہو‘‘، یعنی جس معاملہ میں مال نفع ونقصان کے درمیان  متردد ہو، کہ ہوسکتا ہے کہ  فائدہ ہوجائے اور ہوسکتا ہے کہ نقصان ہوجائےاور جوا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح  خرید وفروخت کا جو معاملہ  بھی خطرے کی بنیاد پر ہو اس میں بھی ”جوا“ کا معنی پایا جاتا ہے، اس لیے وہ بھی جائز نہیں ہے۔

سوال میں ذکر کردہ تفصیل اور ایزی پیسہ ایپ پر دستیاب معلومات کے مطابق   ایزی پیسہ ایپ پر "One Rupee Game" (ايك روپیہ گیم) کے نام سے متعارف اسکیم میں  صارف کو  مخصوص  اشیاء   ایک روپیہ میں خریدنے کا اختیار ہوتا ہے،  اور اس چیز  کی خریداری کا طریقہ   بھی دیگر  چیزوں کی  خریداری کی طرح ہوتا ہے،  اس کے لیے الفاظ بھی خریداری کے ہوتے ہیں جیسے "Buy Now" اور  انوائس بھی خریداری کی بنتی ہے، مثلا اس  میں  لکھا ہوتا ہے: "Purchase Details" (خریداری کی تفصیل )،  "Purchaser Name" (خریدار کا نام) وغیرہ، گویا ایک چیز کئی لوگ  ایک روپیہ میں  خریدتے ہیں، اور  یہ خریداری قرعہ اندازی کے تعلیق پر ہوتی ہے کہ جس کا نام قرعہ اندازی میں آئے گا، اس کو یہ پراڈکٹ مل جائے گی، اور باقی صارفین کو ان کے پیسے واپس مل جائیں گے،   خرید و فروخت کا یہ  معاملہ  خطرہ کی بنیاد پر ہے،  اس میں جوا کا معنی پایا جاتا ہے، کہ اگر قرعہ اندازی میں نام آگیا تو یہ چیز سستی مل جائے گی اور نام نہیں آیا تو  نہیں ملے گی، اس لیے  یہ معاملہ جائز نہیں ہے،  اور اگر  وہ ایک روپیہ باقی صارفین کو واپس نہ کیا جائے تو یہ صریح جوا ہوگا، بہرصورت   اس آفر سے فائدہ اٹھانے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه."

(احکام القرآن للجصاص باب تحریم المیسر، باب تحريم الميسر، ج:1، ص:398، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ما يبطل بالشرط الفاسد ولا يصح تعليقه به: هاهنا أصلان: أحدهما أن كل ما كان مبادلة مال بمال يفسد بالشرط الفاسد كالبيع.

وفي الرد:  والتعليق: ربط حصول مضمون جملة بحصول مضمون جملة أخرى، وتقدم الكلام عليه في كتاب الطلاق، ومثال الشرط الفاسد بعتك بشرط كذا، ومثال التعليق بعتك إن رضي فلان. وفي حاشية الأشباه للحموي عن قواعد الزركشي: الفرق بين التعليق والشرط أن التعليق داخل في أصل الفعل بإن ونحوها، والشرط ما جزم فيه بأصل الفعل: أو يقال التعليق ترتيب أمر لم يوجد على أمر لم يوجد بإن أو إحدى أخواتها، والشرط التزام لم يوجد في أمر لم يوجد بصيغة مخصوصة اهـ (قوله هاهنا أصلان إلخ) الذي تحصل من هذين الأصلين أن ما كان مبادلة مال بمال يفسد بالشرط الفاسد، ويبطل تعليقه أيضا لدخوله في التمليكات لأنها أعم."

(5 / 240، کتاب البیوع، باب السلم، ط: سعید)

الأشباه والنظائر لابن نجيم  میں ہے:

"تعليق التمليكات والتقييدات بالشرط باطل؛ كالبيع والشراء والإجارة والاستئجار ...الخ"

 (1 / 318، الفن الثالث: الجمع والفرق، ط: دارالکتب العلمية)

فتاوی شامی  میں ہے :

"(وما لا تصح) إضافته (إلى المستقبل) عشرة (البيع، وإجازته، وفسخه، والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين) لأنها تمليكات للحال فلا تضاف للاستقبال كما لا تعلق بالشرط لما فيه من القمار.

(قوله:  لأنها تمليكات إلخ) كذا في الدرر. وقال الزيلعي آخر كتاب الإجارة لأنها تمليك وقد أمكن تنجيزها للحال فلا حاجة إلى الإضافة بخلاف الفصل الأول لأن الإجارة وما شاكلها لا يمكن تمليكه للحال وكذا الوصية، وأما الإمارة والقضاء فمن باب الولاية والكفالة من باب الالتزام اهـ.  قلت: ويظهر من هذا ومما ذكرناه آنفا عن الدرر أن الإضافة تصح فيما لا يمكن تمليكه للحال وفيما كان من الإطلاقات والإسقاطات والالتزامات والولايات، ولا تصح في كل ما أمكن تمليكه للحال تأمل (قوله لما فيه من القمار) هو المراهنة كما في القاموس، وفيه المراهنة، والرهان المخاطرة.  وحاصله أنه تمليك على سبيل المخاطرة. ولما كانت هذه تمليكات للحال لم يصح تعليقها بالخطر لوجود معنى القمار."

(5 / 256، کتاب البیوع، باب السلم، مطلب ما يصح إضافته وما لا تصح، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں