بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصال ثواب میں چنے پڑھوانے کا حکم


سوال

 کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مردے کو ثواب پہنچانے کے لئے چنے پڑھوانا درست ہے ؟ اگر درست ہے تو پھر اس چنے کو کیا کیا جائے گا ۔

جواب

واضح رہے کہ مروّجہ رسومات سے  ہٹ کر جب بھی موقع ملے   قران کریم کی تلاوت ذکر اور اذکار استغفار درود شریف اور صدقہ  خیرات  کر کے ایصال ثواب کرنا شرعاً درست ہے، لہذا چنے پڑھوانے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے اس سے اجتناب کرنا  ضروری ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

" ‌من ‌صام ‌أو ‌صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة."

( کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب فى القراءة للميت و اهداء ثوابها له ، ج:2، ص:242، ط: سعید )

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

سوال :"تیسرے دن جو میت کے لئے چنے پڑھے جاتے ہیں اور قرآن شریف دو یا زیادہ ختم کئے جاتے ہیں اس کا کیا حکم ہے، اور اگر بجائے تیسرے دن کے مثلاً چوتھے دن یا دوسرے دن چنے پڑھے جائیں تو پھر بھی رسم پڑ جاوے گی اس وقت کیا حکم ہو گا۔" 

جواب: "یہ رسم تیسرے دن چنے پڑھنے کی اور ختم شریف کی خیر القرون میں ثابت نہیں ہوئی اور اب اس کا التزام اس درجہ ہو گیا ہے کہ عوام اس کو ضروری سمجھتے ہیں اس لئے اس کو ترک کرنا چاہئے اور اس رسم کو توڑنا چاہئے پھر جب اور کوئی دن اسی طرح لازم ہو جاوے اور رسم ہو جاوے اس کو بھی چھوڑ نا ضروری ہو جاوے گا اور جو طریقہ سلف سے ثابت نہ ہو اس کو لازم کر لینا اگر چہ اعتقاد نہ ہو صرف عملاً ہو وہ بھی واجب الترک ہے۔ "

(کتاب الجنائز، فصل زیارت قبور اور ایصال ثواب، ج:5، ص:295، ط: دارالاشاعت کراچی)

فتاوی قاسمیہ میں ہے:

"اگر زید کی والدہ ضعیف ہے اور وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے افاقہ کیلئے کلمہ خوانی یا قرآن خوانی یا دیگر عبادات وغیرہ کے ذریعہ ایصال ثواب کرائے تو یہ شرعاً جائز اور درست ہے لیکن سوال میں ذکر کردہ طریقہ کہ چنے پڑھ کر کھلانایہ شرعا ثابت نہیں ؟ یہ لوگوں کی من گھڑت بدعت ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔"

(کتا ب الجنائز، باب ایصال ثواب للمیت، ج:10، ص:214، ط: مکتبہ اشرافیہ دیوبند) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں