بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصالِ ثواب کی ایک خاص صورت کا حکم


سوال

ایک شخص نے مجھے کہا کہ میرے ایک عزیز فوت ہوچکے ہیں، ان کے لیے کچھ قرآن پاک پڑھوا دیں تو میں نے کہا ٹھیک ہے، میں دو قرآن پاک پڑھا دوں گا تو اس طرح ثواب مرحوم کو پہنچے گا؟

جواب

اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے  ہیں  ان کے لیے دعا بھی کی جا سکتی ہے  اور ان کو اعمال ہدیہ بھی کیے جا سکتے ہیں، خواہ قر آن،تسبیحات وغیرہ پڑھ کربخشا جائے یا صدقہ خیرات اور دیگر حسنات بخشی جائیں۔

لہذا سوال میں ایصالِ ثواب کا جو طریقہ  ذکر کیا گیا ہے اس طرح ایصال ثواب کرنا شرعاً جائز ہے،  البتہ ایصالِ ثواب کے لیے چوں کہ شریعتِ مطہرہ نے کوئی دن یا وقت یا خاص طریقہ متعین نہیں کیا ہے،  اس لیے اس کے  لیے موت کے تیسرے دن یا دسویں دن یا گیارہویں دن یا چالیسویں دن خاص اہتمام کرنا یا برسی یا عرس منانا  بدعت اور واجب الترک ہے۔

پھر اگر پڑھوانے سے مراد یہ ہو کہ کچھ لوگوں کو یا مدرسہ کے بچوں کو جمع کر کے یا اُن کو بلا کر قرآن خوانی کی جائے گی تو  اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میت  کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ:" بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!"

سوم:… یہ کہ ایصال ثواب کے لیے کی گئی  قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لیے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے لیے جمع کرنا مکروہ ہے، اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ تلاوتِ قرآن پر اجرت ہے جو کہ ناجائز ہے۔

اور جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا،  اور اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے، اور  اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا  وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے  اور اس پر اجرت کا لین دین بھی نہ ہو اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے  تو  یہ جائز ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذکراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة".

( البحرالرائق، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ٣/ ٥٩)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں