بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصال ثواب کے لیے دن متعین کرنا


سوال

ایصالِ ثواب کے لیے دن متعین کرنے میں کیا حرج ہے حال آں کہ قرآن ہی پڑھا جاتا ہے اس (متعین دن) میں؟ 

جواب

زندہ اور مردہ کو  ایصالِ ثواب کرنا نہ صرف جائز  بلکہ مستحسن ہے، میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے،لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے،  اور نہ ہی اس کے لیے وقت اور زمانہ متعین ہے، اور  کسی ثابت شدہ عمل کے لیے بھی شریعت کی تعیین کے بغیر از خود دن  متعین کرنا جائز نہیں ہے، عمل اسی وقت قبول ہوسکتا ہے جب وہ شریعت کے مطابق ہو، اگر کوئی شخص مثلاً: ظہر کی فرض نماز میں دو رکعت اضافہ کرکے ادا کرے تو یہ ناجائز اور سخت گناہ ہوگا، حال آں کہ اس نے دو رکعت اضافی پڑھ کر اس میں قیام، تلاوت، رکوع، سجود، تسبیحات، تکبیرات اور درود شریف ہی ادا کیا ہے، اور یہ سب اعمالِ خیر  اور عبادت ہیں، لیکن طریقہ خود ساختہ اور دین میں اضافہ ہونے کی وجہ سے گناہ ہوگا؛ لہذا   نفلی عبادات جن کا وقت اور دن مقرر نہیں ہے،  جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے،  اس کے لیے کسی خاص مہینے یا کسی خاص دن کی تعیین کرنا قرآن وسنت سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے  درست نہیں ہے۔ 

حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه، فهو رد»". (صحيح البخاري (3/ 184) کتاب الصلح،  رقم الحدیث: 2697، ط:  دار طوق النجاة)

فتاوی شامی میں ہے:

وفي البحر: من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع". (2/ 243،  کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في القراءة للمیت وإهداء ثوابها له، ط: سعید)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته".  (الاعتصام للشاطبي (ص: 53) الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ط: دار ابن عفان، السعودية)

مرقاة المفاتیح  میں ہے:

قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟ (3/31،  کتاب الصلاة،  الفصل الأول، ط: رشیدیة)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں