بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصالِ ثواب، برکت اور منت کی قرآن خوانی پر اجرت کے لین دین کا حکم


سوال

 (۱) اگر گھر میں برکت کے لیے یا منت کی بنا پر قرآن خوانی کرائے ، ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کی طرف سے کسی اجرت کی شرط نہ ہو، پھر بھی قرآن خوانی کرانے والا سب کو کچھ رقم دیتا ہے یا کھانا کھاتا ہے تو کیا یہ اجرت علی القرآن میں داخل ہوگا؟ اسی طرح یہ کھانا حلال ہوگا؟

(۲) کیا ایصالِ  ثواب کی قرآن خوانی اور برکت یا منت کی قرآن خوانی میں اجرت کے جواز و عدم جواز کے اعتبار سے کوئی فرق ہے؟

نوٹ ہر شق کا جواب الگ الگ مرحمت فرمائیں؛ کیوں کہ ایک صاحب ان شقوں میں فرق کررہے ہے۔

جواب

قرآن کا پڑھنا خیر وبرکت کا ذریعہ ہے، اور اس کے پڑھنے کا ثواب لوگوں کو پہنچتا ہے، لہذا ایصالِ ثواب  یا برکت کے حصول کے لیے قرآن خوانی تو بلاشبہ دُرست ہے، لیکن اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میت  کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ:" بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!"

باقی  قرآن خوانی پر اگر  اجرت مشروط یا معروف ہو یعنی اس پر  اجرت کے لین دین یا کھانے کھلانے کی شرط ہو تو  اگر وہ  قرآن خوانی  ایصالِ  ثواب کے لیے کی گئی ہو تو اس قرآن خوانی پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ تلاوتِ قرآن پر اجرت ہے جو کہ ناجائز ہے۔

 اور اگر قرآن خوانی پر اجرت مشروط  نہ ہو اور  نہ ہی وہاں یہ معروف  ہو  اور قرآنی پڑھنے والوں کی طرف سے کسی قسم کا مطالبہ بھی نہ ہو اور قرآن خوانی کرانے والا اپنے رضا وخوشی سے اس کے بعد پڑھنے والوں کا کوئی اکرام کردے اور اس کا التزام بھی نہ ہو تو یہ جائز ہے، خواہ یہ قرآن خوانی  کسی بھی مقصد سے ہو۔ 

اور اگر  علاج یا شفا کے لیے یا برکت کے لیے بطورِ وظیفہ قرآن پڑھوایا جائے   تو اس پر عوض لینا یا پڑھنے والوں کو ان کے عوض دینا  ناجائز نہیں ہوگا، اگرچہ  پہلے سے یہ مقرر ہو، جیسا کہ اَحادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے بیمار کو دم کرنے پر تیس بکریوں کا ریوڑ مقرر کیا تھا، اور حضور ﷺ نے  اس سے انکار نہیں فرمایا۔

باقی  منت  کی قرآن خوانی کا مطلب یہ ہے کہ اگر  فلاں کام ہوگیا تو میں قرآن خوانی کراؤں گا تو یہ منت ہی درست نہیں ہے، اس لیے دوسروں سے قرآن پڑھانے کی  جنس میں شریعت میں کوئی فرض یا واجب نہیں ہے، اس لیے یہ  نذر منعقد نہیں ہوگی، اور اگر خود قرآن پڑھنے  کی منت مانی ہے تو  اس صورت میں دوسروں سے  پڑھوانے سے نذر مکمل نہیں ہوگی، بلکہ خود پڑھنا لازم ہوگا۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں:

’’بصورتِ مسئولہ اگر ختمِ قرآنِ کریم کسی مکان میں برکت یا کسی بیمار کی صحت کے لیے ہے تو اس پر رقم مقرر کرنا یا بغیر مقرر کیے ہوئے لینا جائزہے، اور یہ حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بیمار کو دم کرنے پر تیس بکریوں کا ریوڑ مقرر کیا تھا، آں حضور ﷺ نے بھی انکار نہیں فرمایا تھا، بلکہ اس کو نافذ فرمادیا تھا، اس طرح کے دو واقعات بندہ کی نظر سے بحوالہ احادیث گزرے ہیں۔

اس سے معلوم ہواکہ جو ختم شفاءِ مریض یا برکت کے لیے ہو تو اس پر روپیہ مقرر کرنا جائزہے۔ بغیر مقرر کیے اگر دے دیے جائیں اور جھگڑا اور اختلاف اور نزاع نہ ہو تو جائزہے، لیکن اگر نزاع ہو اور ختم پڑھنے کے بعد کھینچا تانی ہو تو یہ عمل جائز نہیں، بلکہ دین اور قرآن کا استخفاف اور بے ادبی ہے۔۔۔ الخ‘‘

کتبہ: رضاء الحق (24/1/1402)

صحيح البخاري (7/ 132):

"عن ابن عباس: أن نفراً من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء، فيهم لديغ أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق، إن في الماء رجلاً لديغاً أو سليماً، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول الله، أخذ على كتاب الله أجراً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أحق ما أخذتم عليه أجراً كتاب الله»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56):

" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون- اهـ".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں