بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائی مستری سے مسجد تعمیر کرانے کا حکم


سوال

کیاعیسائی مستری سےمسجدبنواسکتےہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ بہتر اور افضل تو یہی ہے کہ اللہ کے مقدس اور پاکیزہ گھر کی تعمیر میں جہاں تک ہوسکے مسلمان انجینئر اور مسلمان مزدوروں سے کام لیا جائے، لیکن اس بات کی بھی اجازت اور گنجائش ہے کہ مسجد کی  تعمیر میں  غیر مسلم انجینئر یا غیر مسلم مزدوروں سے مدد لی جائے، اور ان سے اجرت ومعاوضہ دے کر کام کرایا جائے ۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال (822): تعمیرِ مسجد ہنود مستری سے کرانی شرعاً جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو آیتِ کریمہ  {إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} [سورۃ التوبۃ:18]سے کیا مراد ہے؟

جواب: ہندو معماروں سے مسجد تعمیر کرانا درست ہے، جیسا کہ تمام علماءِ  سلف کا یہ معمول بہ  بلانکیر ہونا اس کی دلیلِ بیّن ہے، اور آیتِ کریمہ سے مراد مسجد کی معنوی آبادی ہے، جوکہ ذکر اللہ اور اقامتِ  صلوۃ اور جلوس فی المساجد وغیرہ سے ہے مراد ہے۔"

(وقف کا بیان، ہندو معماروں سے مسجد تعمیر کرانا درست ہے، ج:14، ص:55، ط:دارالاشاعت)

التفسير المنير للزحيلي میں ہے:

"مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ (17) إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (18) 

استنبط من الآيات ما يأتي:

1- لا ثواب للمشركين في الآخرة على أعمال البر التي تصدر عنهم في الدنيا.

2- المتصفون بالإيمان بالله ورسوله واليوم الآخر، والمقيمون الصلاة، والمؤتون الزكاة، والذين لا يخشون أحدا سوى الله، هم الجديرون بعمارة المساجد، وأصحاب هذه الصفات الأربعة هم الذين يعمرون المساجد، وهم أهل الاهتداء إلى الخير والصراط المستقيم.

3- دل قوله: وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ على أنه ينبغي لمن بنى مسجدا أن يخلص لله في بنائه، وألا يقصد الرياء والسمعة.

والأصح أنه يجوز استخدام الكافر في بناء المساجد، والقيام بأعمال لا ولاية له فيها، كنحت الحجارة والبناء والنجارة، فهذا لا يدخل في المنع المذكور في الآية، إنما المنع موجه إلى الولاية على المساجد والاستقلال بالقيام بمصالحها، مثل تعيينه ناظر المسجد أو ناظر أوقافه. وقيل: إن الكفار ممنوعون من عمارة مساجد المسلمين مطلقا.

ولا مانع أيضا من قيام الكافر ببناء مسجد أو المساهمة في نفقاته، بشرط ألا يتخذ أداة للضرر، وإلا كان حينئذ كمسجد الضرار. ولكن ليس للكافر ترميم المساجد، حفاظا على تعظيمها، ولأن تطهير المساجد واجب لقوله تعالى: أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ والكافر نجس الاعتقاد، لقوله تعالى: إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [التوبة 9/ 28] ولأنه لا يحترز من النجاسات، فدخوله في المسجد ربما يؤدي إلى تلويثه، فتفسد عبادة المسلمين".

(عمارة المساجد، [سورة التوبة (9) : الآيات 17 الى 18]، ج:10، ص:140، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں