بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصالِ ثواب کے بعد شرکاء میں مٹھائی تقسیم کرنا


سوال

بنگلہ دیش میں ایک رسم کا بہت رواج ہے کہ کسی کے انتقال کے تیسرے یا چوتھے دن عصر یا  کوئی  اور نماز کے بعد مسجد میں میت کے  لیے اجتماعی دعا  کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

اس دعا میں میت کے رشتہ دار ، دوست احباب، عزیز قریب اور مسجد کے نمازی شریک ہوتے ہیں اور  اس دعا سے  پہلے درود شریف و استغفار کے ساتھ میت کے  لیے ایصالِ  ثواب کی نیت سے کوئی  سورہ  جیسے  سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص، سورہ فلق، سورہ  ناس بھی سب حاضرین  پڑھتے ہیں،  پھر دعا کے بعد میت کے رشتہ داروں یا ورثاء کی طرف سے سب حاضرین کے  ہاتھوں میں مٹھائی یا کوئی  اور غذا دی جاتی ہے۔ یعنی یہ کھانا مال دار اور مسکین سب کو دیا جاتا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ میت کے  لیے دعا کے بعد سب حاضرین کو کھانا دینا یا کھلانا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟ اور سب حاضرین کے  لیے اس کھانے کا  کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  ایصالِ  ثواب کے  لیے کوئی دن مقرر کرنا اور ایصالِ  ثواب   کی غرض سے شرکاء  میں مٹھائی یا کھانے کی اشیاء تقسیم کرنا بے اصل ہے،  اور   رواج  کے مطابق ایسی مجلس میں شرکت کرکے کھانے اہتمام کرنا  اور  کھانا کھانا مکروہ ہے، اور  اگر کھانے،  مٹھائی کا اہتمام میت کے ترکہ سے کیا جائے  یا مٹھائی یا کچھ  معاوضہ قرآنِ مجید یا مختلف اَذکار پڑھنے کے عوض دیا جائے تو  یہ شرعًا ممنوع ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں  دن  کی تعیین کے بغیر کسی نماز کے بعد ایصالِ  ثواب کرسکتے ہیں، البتہ رواج کے مطابق مٹھائی یا کھانے کی چیز تقسیم  کرنے کا  التزام واجب  الترک ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و قال أيضًا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص.

والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره.

وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ  طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالا بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالبا من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم."

( كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في الثواب على المصيبة، ٢ / ٢٤٠ - ٢٤١، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں