بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ارم عشال نام


سوال

میری بیٹی کا نام "اِرم عِشال" ہے، کیا یہ نام معنی کے لحاظ سے درست ہیں؟

جواب

’’اِرَم‘‘ کے مختلف معانی ہیں:

(1) قوم عاد کا جدِ اعلیٰ (2)  قوم عاد کا شہر (3) بہشت (جنت) جسے شدادِ عاد نے ملکِ صنعاء اور حضرموت کے درمیان بنایا تھا، اور فارسی زبان میں اس لفظ کے معنی  بہشت اور جنت کے ہیں۔ (لغات فارسی)

اور اس کے علاوہ یہ  تباہ شدہ قوم جس کی ایک شاخ عاد ہے کو بھی کہتے ہیں۔ (قاموس) 

بعض معانی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست ہے، لیکن چوں کہ تباہ اور ہلاک شدہ قوموں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس کے بجائے دیگر اچھے اور بامعنی نام رکھے جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

"عشال" ( "عین" پر زبر اور "ش" پر تشدید کے ساتھ) اور «عاشل» کا معنی ہے: "درست اندازا لگانے والا"۔ (لسان العرب) لیکن یہ مذکر صفت ہے، اس لیے لڑکے کا نام یہ رکھنا مناسب نہیں ہے۔

«عشال» "عین" کے نیچے زیر کے ساتھ عربی لغت میں استعمال نہیں ہوتا۔

مذکورہ نام (اِرم عشال) رکھنے میں گناہ تو نہیں، لیکن اگر نام تبدیل کرنا ممکن ہو تو  اس کی جگہ کوئی اور اچھے معنٰی والا عربی نام یاصحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کوئی نام منتخب کرکے رکھاجائے۔ 

تاج العروس  میں ہے:

"(و) {إرَمُ} وأَرامٌ (كَعِنَبٍ وسَحابٍ: والِدُ عادٍ الأولىَ، أَو الْأَخِيرَة، أَو اسمُ بَلْدَتِهِم) الَّتِي كَانُوا فِيهَا، (أَو أُمِّهِم أَو قَبِيلَتِهِم) . مَنْ تَرَكَ صَرْفَ إِرَم جعله اسْما للقبيلة، (و) فِي التَّنْزِيل: {بعاد إرم ذَات الْعِمَاد} ، قَالَ الجوهريّ: من لم يُضِفْ، جعل إِرَمَ اسْمَه وَلم يَصْرِفْه، لأنّه جعل عادًا اسمَ أَبِيهم، وَمن قَرَأَهُ بالإضافَة وَلم يَصْرِفْه جعله اسمَ أُمِّهم أَو اسمَ بَلْدَة. وَقَالَ ياقوتُ - نَقْلاً عَن بَعضهم -: إِرَمُ لَا ينْصَرف للتَّعْرِيف والتَّأْنِيث لأنَّه اسمُ قَبِيلَة، فعلى هَذَا يكونُ التقديرُ: إِرَم صاحبِ ذَات العِمادِ، لأنّ ذَات العمادِ مدينةٌ، وَقيل: ذاتُ العِمادِ وصفٌ، كَمَا تَقول: القَبِيلَةُ ذاتُ المُلْك، وَقيل: إِرَمُ مدينةٌ، فعلى هَذَا يكون التَّقْدِير بعادٍ صاحبِ إِرَمَ. ويقرأُ: بِعادِ إِرَمَ ذاتِ العِماد، بالجَرّ على الْإِضَافَة. ثمَّ اختُلِف فِيهَا، مَنْ جعلهَا مَدِينَة، فَمنهمْ من قَالَ هِيَ أَرْضٌ كَانَت وانْدَرَسَتْ، فَهِيَ لَا تُعْرَف، وَقيل: (دِمَشْق) وَهُوَ الأكْثَر، وَلذَلِك قَالَ شبيبُ بن يَزِيدَ بنِ النُّعْمان بنِ بَشِير:
لَوْلا الَّتي عَلِقَتْنِي من عَلائِقها ... لَمْ تُمْسِ لي إِرَمٌ دَارا وَلَا وَطَنا
قَالُوا: أَرَادَ دِمَشْقَ، وَإِيَّاهَا أَرَادَ البُحْتَرِيُّ بِقَوْلِه:
إِلَى إِرَمٍ ذاتِ العِماد وإنّها ... لَمَوْضِعُ قَصْدِي مُوجِفًا وَتَعَمُّدِي
(أَو الإسْكَنْدَرِيّة) . وَحكى الزمخشريُّ: أنّ إِرَمَ بلدٌ مِنْهُ الإٍ سكندريّة. ورَوَى آخَرُونَ: أنّ إِرَمَ ذَات العِمادِ باليَمَنِ بَين حَضْرموتَ وَصَنْعاءَ من بِناءِ شَدّادِ بن عَاد، وذَكَرُوا فِي ذَلِك خَبرا طَويلا لم أذكرهُ هُنَا خشيَة المَلالِ والإطالَة".

تاج العروس میں ہے:

"الْعَاشِلُ : الْمُخَمِّنُ الذي يَظُنُّ فَيُصِيبُ كالْعاشِنِ والْعَاكِلِ، كَما في اللِّسَانِ، وأَهْمَلَهُ الْجَماعَةُ".

لسان العرب میں ہے:

"العاشِلُ والعاشِنُ والعاكِلُ المُخَمَّن الذي يَظُنُّ فيُصِيب"

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144204200952

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں