بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ارطغرل ڈرامہ دیکھنے کا حکم


سوال

آج کل پاکستان میں ارتغل ڈرامہ بہت پسند کیا جا رہا ہے، کیا یہ ڈرامہ دیکھنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں کسی کام کے جائز ہونے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں:

1۔  اس کام کا مقصد درست ہو یعنی شریعت کے خلاف نہ ہو ۔

2۔  اس مقصد کے لیے جو  ذریعہ استعمال کیا جائے وہ بھی درست ہو یعنی  شرعاً جائز ہو ۔

پس اگر کام   نیک مقصد والا ہو  مگر  اس کے حصول کا  سبب و طریقہ ناجائز ہو جیسا  کہ مذکورہ ڈراما، اگرچہ اس کا ظاہری مقصد  ممکنہ طور پر  اچھا ہے، لیکن چوں کہ خود ڈراما سازی (  جو کہ مقصد کا ذریعہ ہے، وہ) کئی ناجائز و حرام امور (جیسے تصویر کشی، مرد و زن کے اختلاط اور نامحرم کے دیکھنے اور موسیقی) پر مشتمل ہے،  لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر مذکورہ ڈراما یا کوئی بھی ڈرامہ دیکھنا اور اس کی تشہیر ناجائز ہے۔

 محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 ” ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں۔ اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں۔ ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں۔ اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی“۔( از محدث العصر  مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ،بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:۱۰۴،۱۰۵)   

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{ومن الناس من یشتري لهو الحدیث لیضل عن سبیل اللّٰه بغیر علم ویتخذها هزوا ، اولئک لهم عذاب مهین} [لقمٰن :۶]

بخاری شریف میں ہے:

"[عن] عبد الله قال: سمعت النبي ﷺ یقول: ’’إن أشد الناس عذاباً عند الله المصورون‘‘. (کتاب اللباس، باب عذاب المصورین یوم القیامة، ٢ / ٨٨٠)

الدرالمختار میں ہے:

"(و) كره (كل لهو) لقوله عليه الصلاة والسلام:  «كل لهو المسلم حرام إلا ثلاثة: ملاعبته أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته بقوسه». (ج:۶  / ۳۹۵ ط:سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201713

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں