بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث اور زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

 میری بیوی  کا انتقال ہوئے تقریباً پانچ سال ہوگئے ہیں، ان کی ملکیت میں ایک مکان ہے، جس کی مالیت ایک کروڑ روپے پاکستانی ہے ،ورثا میں شوہر ،چار بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں،شریعت کے مطابق اس گھر کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ میرا ایک گھر ہے، جس کی مالیت اسی لاکھ روپے ہیں ،میں اس کو اپنی زندگی میں مذکورہ اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہوں .شریعت کے مطابق اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو  تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 56 حصوں میں تقسیم کرکے 14 حصے مرحومہ کے شوہر کو ،6 حصے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو اور 3 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔

میت۔۔۔56/4

شوہربیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
13
14666663333

ایک کروڑ روپے میں سے 2500000روپے مرحومہ کے شوہر کو ،1071428.571 روپے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو اور 535714.285 روپے مرحومہ کے ہر ایک بیٹی کو ملے گا ۔

مرحومہ کے کفن دفن کا خرچہ شوہر کے ذمہ واجب ہے ۔

در مختار میں ہے :

"(واختلف في الزوج والفتوى على وجوب كفنها عليه) عند الثاني (وإن تركت مالا) خانية ورجحه في البحر بأنه الظاهر لأنه ككسوتها".

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،ج:2،ص:206،سعید)

  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل".

(کتاب الوقف،ج:4،ص:444،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں