بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اقامت اور نمازکے درمیان فاصلہ آنے سے دوبارہ اقامت کہنے کا حکم


سوال

 ہم باہر جماعت کے لیے کھڑے ہوئے اور اقامت بھی پڑھ لی لیکن بارش یا کسی اور وجہ سے ہم جماعت پڑھنے  کے لیے اندر چلے گئے   اب دوبارہ اقامت کہنے  کا کیا حکم ہے؟

تنقیحات :

1۔تقریبًا 25 فٹ کا فاصلہ ہے اس سے کم ہو تو 24 یا زیادہ ہو تو 26  فقط۔

2۔مسجد کے صحن میں کھڑے تھے اقامت مکمل ہوئی بارش کی وجہ  سے مسجد کے کمرے میں چلے گئے۔

3۔ جامع مسجد ہو تو کیا حکم ہے اور جامع مسجد نہ ہو تو کیا حکم ہے۔
4۔ صرف اتنی بات ہوئی کہ مصلے اٹھاؤ اور جلدی جلدی کمرے میں آجاؤ۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اقامت کہنے کے بعد مؤذن کا کلام کرنا نیز مسجد کے صحن سےمسجدکے اندر ہال جاناشرعًا عمل كثير تبدل مکان  ہوا، اور اقامت کہنے کے بعد مذکورہ افعال پائے جانے کی وجہ سے نماز شروع کرنے میں فاصلہ اورتاخیرہوئی،تواس صورت میں دوبارہ اقامت کہنی چاہیے۔

الدر مع الرد میں ہے:

"وينبغي إن طال الفصل أو وجد ما يعد قاطعا كأكل أن تعاد""(قوله: وينبغي إلخ) أقول: قال في آخر شرح المنية: أقام المؤذن ولم يصل الإمام ركعتي الفجر يصليهما ولا تعاد الإقامة؛ لأن تكرارها غير مشروع إذا لم يقطعها قاطع من كلام كثير أو عمل كثير مما يقطع المجلس في سجدة التلاوة. "

[كتاب الصلاة، باب الأذان، ج:1، ص:400، ط: سعيد]

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم تبدل المجلس قد يكون حقيقة وقد يكون حكما بأن تلا آية السجدة ثم أكل أو نام مضطجعا، أو أرضعت صبيا، أو أخذ في بيع أو شراء أو نكاح أو عمل يعرف أنه قطع لما كان قبل ذلك ثم أعادها فعليه سجدة أخرى؛ لأن المجلس يتبدل بهذه الأعمال.

ألا ترى أن القوم يجلسون لدرس العلم فيكون مجلسهم مجلس الدرس، ثم يشتغلون بالنكاح فيصير مجلسهم مجلس النكاح، ثم بالبيع فيصير مجلسهم مجلس البيع، ثم بالأكل فيصير مجلسهم مجلس الأكل، ثم بالقتال فيصير مجلسهم مجلس القتال فصار تبدل المجلس بهذه الأعمال كتبدله بالذهاب والرجوع لما مر.

ولو نام قاعدا أو أكل لقمة أو شرب شربة أو تكلم بكلمة أو عمل عملا يسيرا ثم أعادها فليس عليه أخرى؛ لأن بهذا القدر لا يتبدل المجلس والقياس فيهما سواء أنه لا يلزمه أخرى لاتحاد المكان حقيقة إلا أنا استحسنا إذا طال العمل اعتبارا بالمخيرة إذا عملت عملا كثيرا خرج الأمر عن يدها وكان قطعا للمجلس بخلاف ما إذا أكل لقمة أو شرب شربة."

(كتاب الصلاة،فصل في سبب وجوب السجدة،ج:183،ط:دارالكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"(ولا يتكلم فيهما) أصلا ولو رد سلام، فإن تكلم استأنفه ..... قوله: استأنفه إلا إذا كان ‌الكلام ‌يسيرا خانية"

(كتاب الصلاة ،باب الاذان،ج:1،ص:389،ط:سعيد)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

بلاتاخیرنمازشروع کرےتواقامت کےاعادہ کی ضرورت نہیں پہلی اقامت کافی ہے،اوراگرتاخیرہوگئی ہےتواقامت دوبارہ کہے۔

(کتاب الصلاۃ،ج:3،ص:21،ط:دارالاشاعت کراچی)

فتاوی دارالعلوم دیوبندمیں ہے:

"عبارت شامی کی "لأن تكرارها غير مشروع إذا لم يقطعها قاطع"سے معلوم ہوتاہے کہ صورت مسئولہ میں اعادہ اقامت کی جاوے ،اوراس میں امام کافعل یااقامت کہنے والے کاجوموجب تاخیرصلوۃ ہوبرابرہے۔"

(کتاب الصلاۃ،ج:1،ص:93،ط:دارالاشاعت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں