اقامت کے بعد اذان کی دعا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے؟
حدیث مبارک میں اقامت کو بھی اذان سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے :
"عن عبد الله بن مغفل المزني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "بين كل أذانين صلاة".
"ترجمہ:ہر دو اذانوں کے درمیان نما ز ہے۔"
(صحيح البخاري، باب بين كل أذانين صلاة لمن شاء (1/ 128) برقم (627)، ط/ دار طوق النجاة، 1422ھ)
(صحيح مسلم، باب بين كل أذانين صلاة، (1/ 573) برقم (838)،ط/ دار إحياء التراث العربي، بيروت)
پہلی اذان سے مراد معروف اذان ہے، جبکہ دوسری اذان سے مراد اقامت ہے، اس عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ جو احکامات معروف اذان کے لیے ہیں، وہی احکامات اقامت کے لیے بھی ہیں، چناں چہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "إذا سمعتم المؤذن، فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي؛ فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا،ثم سلوا الله لي الوسيلة؛ فإنها منزلة في الجنة، لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أن أكون أنا هو، فمن سأل لي الوسيلة حلت له الشفاعة".
"ترجمہ: کہ جب تم مؤذن کو سنو، وہی کلمات دہراؤ جو وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود شریف پڑھو، کیوں کہ جس نے مجھ پر ایک بار درود شریف پڑھا ،اللہ تعالی دس بار اس پر رحمت نازل فرمائیں گے، اور میرے لیے وسیلہ مانگو (اذان کے بعد کی مشہور دعا میں یہی مطلوب ہے) کیوں کہ وہ جنت میں ایک مقام ہے، جو صرف اللہ تعالی کے ایک بندے کو حاصل ہو سکتا ہے، مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا، جس نے میرے لیے وسیلہ مانگا، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی۔"
(صحيح مسلم، باب القول مثل قول المؤذن لم سمعه...، (1/ 288) برقم(384)، ط/ دار إحياء التراث العربي)
اقامت کا جواب بھی اسی طرح ہے، جس طرح اذان کا جواب دیا جاتا ہے ، اس کی تائید"سنن أبي داود" کی ایک روایت سے ہوتی ہے:
"عن أبي أمامة، أو عن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، أن بلالا أخذ في الإقامة، فلما أن قال: قد قامت الصلاة، قال النبي صلى الله عليه وسلم: "أقامها الله وأدامها"، وقال: في سائر الإقامة كنحو حديث عمر رضي الله عنه في الأذان."
"ترجمہ: ابو امامہ یا دیگر بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے مروی ہے کہ بلال رضی اللہ تعالی اقامت شروع فرماتے تھے، اور جب "قد قامت الصلاۃ"تک پہنچتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم " أقامها الله وأدامها" پڑھتے تھے، باقی پوری اقامت میں وہی الفاظ دہراتے جو اذان کے جواب میں دہرائے جاتے ہیں، جیسا کہ عمر رضی اللہ تعالی کی حدیثِ اذان میں اس کا بیان ہے۔"
(سنن أبي داود، باب ما يقول إذا سمع الإقامة،(1/ 145) برقم (528)، ط/ المكتبة العصرية، بيروت)
یہ روایت اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، لیکن اس کی اصل صحيح روايات سے ثابت ہو چکی ہے،علاوہ ازیں اقامت اور نماز کا درمیانی وقفہ قبولیتِ دعا کا وقت ہے، چناں چہ"صحیح ابن حبان" کی روایت ہے:
"عن سهل بن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ساعتان تفتح فيهما أبواب السماء عند حضور الصلاة وعند الصف في سبيل الله."
"ترجمہ:سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: دو گھڑیاں ایسی ہیں جن میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ( یہ تعبیر دعا کی قبولت کےلیے استعمال کی جاتی ہے)1-نماز کےعين قيام کے وقت، 2-اور اللہ تعالی کے راستے میں صف بندی کے وقت۔"
(صحيح ابن حبان، ذكر فتح أبواب السماء عند دخو ل أوقات الصلوات المفروضات،(5/ 5) برقم (1720)،ط/ مؤسسة الرسالة، 1408ھ)
اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ عین نماز کے وقت اقامت کے بعد دعا مانگی جاسکتی ہے، اور وہ قبولیت کا وقت ہے،اس وقفہ میں اگر کوئی دعاءِ وسیلہ( اذان کے بعد والی دعا) پڑھنا چاہے، تو اس کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے، چناں چہ " الموسوعة الفقهية الكويتية " میں ہے:
"وورد أيضا استجابة الدعاء بعد الإقامة، وهو حديث سهل بن سعد رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم: ساعتان تفتح فيهما أبواب السماء: عند حضور الصلاة وعند الصف في سبيل الله".
(الموسوعة الفقهية الكويتية، الدعاء بين الأذان والإقامة وبعدها، (39/ 226)، وزارة الأوقاف والشؤن الإسلامية)
مزيد يه كه اقوالِ تابعین میں صراحت کے ساتھ اقامت کے آخر ميں دعاءِ وسیلہ (اذان کے بعد والی دعا)پڑھنے کی ترغیب بھی موجود ہے، جو اس کے ثبوت اور درست ہونے کی طرف مُشیر ہے ، ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفي:235 ھ) فرماتے ہیں:
"حدثنا أبو الأحوص، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: " إِذَا سَمِعْتَ الْمُؤَذِّنَ فَقُلْ كَمَا يَقُولُ، فَإِذَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، فَقُلْ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِذَا قَالَ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، فَقُلِ: اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، أَعْطِ مُحَمَّدًا سُؤْلَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلَنْ يَقُولَهَا رَجُلٌ حِينَ يُقِيمُ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ فِي شَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. "
"ترجمہ: یعنی حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم مؤذن کی آواز سنو توویسے ہی کہو جیسے وہ کہہ رہا ہے، پس جب وہ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِکہے تو تملَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہو، اور جب وہ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُکہے(یعنی اقامت کہے)تو تم کہو اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، أَعْطِ مُحَمَّدًا سُؤْلَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، جو اسے اقامت کے وقت (یعنی اقامت کے اخیرمیں )کہے گا، اللہ اسے قیامت کے روز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت میں شامل فرمائے گا۔"
(مصنف ابن أبی شیبة، ما يقول الرجل إذا سمع الأذان، (2/ 383) برقم (2380)، ط/ شركة دار القبلة، جدّه)
نيز اسي اثر كو دوبارہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفي:235 ھ) نے’’ما یدعو به الرجل إذا قامت الصلاة‘‘ (آدمی کیا دعا کرے جب اقامت کہی جا چکے) کے عنوان کے تحت بھی نقل فرمایا ہے :
"حدثنا أبو الأحوص، عن أبي حمزة، عن الحسن، قال : إذا سمعت المؤذن، قال قد قامت الصلاة فقل: اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة أعط محمدا صلى الله عليه وسلم سؤله يوم القيامة لا يقولها رجل حين يقوم المؤذن إلا أدخله الله في شفاعة محمد صلى الله عليه وسلم يوم القيامة. "
(مصنف ابن أبی شیبة، ما یدعو به الرجل إذا قامت الصلاة، (15/ 366) برقم (30391)، ط/ شركة دار القبلة، جدّه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144109201753
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن