بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اقالہ کے لیے فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہے


سوال

میں نے آج سے دس سال پہلے زید سے ایک مکان پانچ لاکھ میں خریدااور اس پر قبضہ بھی کر لیا، لیکن زید نے رجسٹری نہیں دی ،میں نے اب دس سال کے بعد رجسٹری مانگی تو اس نے کہا کوئی رجسٹری نہیں، یہ اپنے پانچ لاکھ پکڑو اور جاؤ، میں نے کہا ،میں نے یہ مکان نہیں بیچنا ، اگرآپ نے واپس لینا ہے تو پھر آج کا ریٹ لگواؤ ،لیکن وہ نہیں مانا اس نے مجھے پانچ لاکھ دے دیئے، میں مجبور ہو کر پانچ لاکھ لے کر آگیا، میں نے اس سے کہا کہ آپ زیادتی کر رہے ہو یہ مکان میرا ہے، میں اتنے میں نہیں دینا چاہتا، اب پوچھنا یہ ہے کہ اب اس مکان کا مالک کون ہے وہ یا میں ؟

جواب

واضح رہے کہ اقالہ (سودا ختم کرنے )کے لئے فریقین کا باہم رضامند ہونا ضروری ہے ،صورت مسئولہ میں سائل نے جب مکان زید سے  پانچ لاکھ میں خرید ا تھا تو سائل اس مکان کا مالک بن گیا تھا،اب زید  کا مذکورہ سودا سائل کی رضامندی کے بغیر ختم کرنا اور سائل کو اس کے پانچ لاکھ روپے واپس دینا  شرعا غلط ہے ،سائل ہی اس مکان کا مالک ہے ،زید پر لازم ہے کہ وہ مکان سائل کے حوالہ کردے اور سائل کے نام رجسٹری بھی کروادے ،ورنہ سائل مکان کی عوض میں جتنی رقم مانگتا ہے اس پر رضامندی سے زید سودا کر لے ورنہ آخرت میں پکڑ ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وتتوقف على قبول الآخر) في المجلس ولو كان القبول (فعلا) كما لو قطعه أو قبضه فور قول المشتري أقلتك؛ لأن من شرائطها اتحاد المجلس ورضا المتعاقدين أو الورثة أو الوصي .

(قوله: في المجلس) فلو قبل بعد زوال المجلس أو بعدما صدر عنه فيه ما يدل على الإعراض لا تتم الإقالة ابن مالك."

 (کتاب البیوع ،باب الاقالة،5/ 121ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں