بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ای او بی آئی EOBI کی پنشن لینا


سوال

کیا ای او بی آئی (EOBI) کی پینشن لینا جائز ہے؟

جواب

ای او بی آئی  (EOBI) حکومتِ پاکستان کی طرف سے پنشن اور بڑھاپے  کی انشورنس کی سہولت کے لیے قائم فنڈ کا ادارہ ہے،  جو ملازمین اور ان کے ورثاء کو ان کی سروس کی مدت کے مطابق پنشن و دیگر منفعت دیتا ہے،کمپنیاں ملازمین کی تنخواہ میں سے کچھ پیسے کاٹ کر ڈالتی ہیں اور اپنی طرف سے بھی اتنا ہی اس میں دیتی ہیں، اس رقم کی  انویسٹمنٹ  سودی  سرمایہ کاری  کے اداروں میں بھی کی جاتی ہے۔

لہذا ای او بی آئی  (EOBI)  سرمایہ  کاری کا مذکورہ طریقہ کار ناجائز ہے، تاہم اگر  ملازم کے ادارے کی طرف سے  اس کی تنخواہ سے اس مد میں جبری کٹوتی ہوتی ہو ، ملازم کو اس میں اختیار نہ ہو تو  اس صورت میں جو منافع (پنشن وغیرہ)  ملازمین کو  ملتے ہیں، ملازم کے لیے اس کا لینا  جائز ہے، اور اگر کٹوتی اختیاری ہوتی ہے تو جتنی رقم ملازم کی تنخواہ سے کٹتی ہے اور جو رقم ابتدا میں کمپنی شامل کرتی ہے، وہ رقم ملازم کے لیے لینا جائز ہوگا، اس پر ملنے والی اضافی رقم ( انٹرسٹ ) لینا  جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الربا هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة والبيوع الفاسدة فكلها من الربا فيجب رد عين الربا لو قائما لا رد ضمانه لأنه يملك بالقبض قنية وبحر (خال عن عوض) خرج مسألة صرف الجنس بخلاف جنسه (بمعيار شرعي) وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربا (مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر فلو شرط لغيرهما فليس بربا بل بيعا فاسدا (في المعاوضة)."

(5/ 168، 170، باب الربا، ط: سعید)

     البحر الرائق میں ہے:

"(قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها."

(7  / 300، کتاب الإجارۃ، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411101926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں