بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انٹرنیشنل سطح پر شطرنج کھیلنے کا حکم


سوال

اگر کوئی بندہ نیشنل یا انٹر نیشنل لیول پہ شطرنج کھیل رہا ہو تو وہ حرام ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو ، جیسے: تیراکی، تیراندازی ،گھڑسواری  اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی  کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے  گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں۔

صورتِ مسئولہ میں شطرنج کھیلنا ہی باعث گناہ اور ایک مکروہ عمل ہے،  اگر یہ کھیل جوئے   کی شرط کے  ساتھ کھیلا جائے تو بالکل ناجائز اور حرام ہی ہے، لہذا شطرنج کھیلنا خواہِ انٹرنیشنل سطح پر ہو یاکسی بھی حالت میں ہو کھیلنا جائز نہیں ہے۔

امداد الفتاوی میں ہے:

سوال (309) کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اندریں صورت: کہ نرد ہائے شطرنج معنی آیۃ کریمہ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ  الآية"ميں داخل ہے یا صرف لہو لعب فعل عبث ہو، اور بحالت فرصت کوئی شخص تفنن کی راہ سے اوقات بیکاری میں مشغلہ شطر نج کا کرے تو مرتکب گناہ کبیر مثل خمر و میسر کے ہو یا فعل عبث و بیہودہ ہے، اور معنیٰ انصاب کے محققانہ تحریر فرمائے اور صاحب مذہب شافعی کا کھیلے تو از روئےمذہبِ  شافعی مرتکب کبیرہ گناہ کا ہوگا، اور شطرنج زمانہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی یا نہیں ، اور مسئلہ شطرنج قیاسی ہے یا منصوص ، کتب حدیث، تفسیر وفقہ سے بحوالہ کتب جواب تحریر فرمائیے، بینوا توجروا ؟

جواب: اگر چہ شطرنج انصاب میں جو بمعنی بت کے ہے داخل نہیں، مگر دوسرے دلائل سے حرام ہے، اگر مع القما ر ہو تو بالاجماع لقوله تعالی: { إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصابُ } الآیة اور بدون قمار کے ہے تو مع الاختلاف، یعنی ہمارے نزدیک اس وقت بھی حرام ہے؛  لإطلاق ما روی صاحب الهدایة؛ لقوله علیه السلام: من لعب بالشطرنج والنردشیر فکأنما غمس یده في دم الخنزیر، ولقول علي رضي اﷲ عنه حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، فقال: ما هذه التماثیل التي أنتم لها عاکفون؟ وروی مثل هذا عن عمر رضي اﷲ عنه أیضاً حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، وقد شبه عملهم بعمل بعبادة الأوثان. اهـ غایة البیان ۱۲. وعن عبیداللّٰه بن عمر رضي اﷲ عنه أنه قال للقاسم بن محمد: هذه النرد یکرهونها فما بال الشطرنج؟ قال: کل ما ألهی من ذکر اللّٰه وعن الصلوٰة فهو میسر. تخریج زیلعی۱۲". 

اور جو کہ بعض کتب حنفیہ میں اس کی نسبت مکر وہ لکھا ہے، مراد اس سے مکروہ تحر یمی ہے جو عملاً مثل حرام کے ہے،  استحقاق عقوبت ناری ہیں ، اگر چہ علماً فرق ہے کہ منکر اس کا کافر نہیں ، کما صرح به فی رد المحتار، پس ہمارے نزدیک ارتکاب اس فعل حرام کا موجب استحقاق عذاب جہنم ہے، اعاذ اللہ منہ ، اور امام شافعی کے نزدیک اس صورت میں حرام نہیں لیکن مکروہ ہے، چنانچہ امام نووی شافعی نے شرح مسلم میں تصریح فرمائی ہے و اما الشطر في فمذهبنا مكروه ليس بحرام اور بعض کتب میں جو ان کی طرف نسبت اباحت کی ہے وہ اباحت مقابل حرمت کے ہو جو شامل ہو کراہیت کو،لما مر آنفًا، اور یہ کراہت بھی مقید چند شرائط کے ساتھ ہے، کہ نماز و جواب سلام سے غافل نہ کرے اور قمار نہ ہو اور بہت نہ کھیلے ورنہ اُن کے نزدیک بھی حرام ہے ،" لما في التفسير الاحمدي ومباح عند الشافعي بشرط كونه غير مأتم من الصلاةورد السلام وكون غير مقمر ومكثر منه ، اقول قوله مباح او مکروه كما مر"  اور امام مالک اور امام احمد بن جنبل" بھی ہمارے ساتھ متفق ہیں، بلکہ امام مالک فرماتے ہیں کہ یہ نرد سے بھی بد تر اور قمار سے زیادہ غفلت میں ڈالنے والی ہے جس کی حرمت متفق علیہ بین الجمہور ہے، وقال النووی ، وقال مالك واحمد حرام، قال مالك هو اشر من النرد والهي عن المیسر،  بہر حال اول تو ائمہ ثلثہ رحمہم اللہ کے نزدیک حرمت اس کی متفق علیہ ہے، اور اگر امام شافعی کو نزدیک مکر وہ بھی ہے تو چند شرائط سے کہ وہ شرائط غالبا اس زمانہ میں مفقود ہیں، کہا ہو مشاہد غیرخفی، اور اگر مفقود نہ بھی ہوں تب بھی استخفات و دوام سے مکر وہ حرام ہو جاتا ہے۔

(غناء ومزامیر اور لہو لعب وتصاویر کے احکام، شطرنج کا حکم، ج:4، ص:240، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله والشطرنج) معرب شدرنج، وإنما كره لأن من اشتغل به ذهب عناؤه الدنيوي، وجاءه العناء الأخروي فهو حرام وكبيرة عندنا، وفي إباحته إعانة الشيطان على الإسلام والمسلمين كما في الكافي قهستاني".

(کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع، ج:6، ص:394، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں