بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک قطر تکافل سے انشورنس کروانے کا حکم


سوال

میں جس جگہ ملازمت کرتا ہوں یہ ادارہ اپنے ہاں کام کرنے والے ملازمین کو صحت کی مد میں انشورنس ( پاک قطر تکافل سے )کروا کردیتا ہے ، یہ سہولت ملازمین کے حامی بھرنے پر لاگو ہوجاتی ہے،انشورنس کے لیے جو اپلائی کردے  اس کی ماہانہ تنخواہ میں سے مخصوص رقم کمپنی کاٹتی ہے ، اس سہولت کو کوئی بھی ملازم سال بعد ختم کروا سکتا ہے، اس سہولت میں علاج کی کچھ مخصوص سہولیات (آپریشن ، سرجری ، بچوں کی پیدائش سے متعلق اخراجات) شامل ہیں ، اس میں ملازمین کو رقم کے اعتبار سے فائدہ ہے انشورنس کمپنی کو نقصان ہے کہ جس سال اس سہولت سے فائدہ نظر آرہا ہو تو کروا لی وگرنہ ختم کروا دی ۔

1.کیا اس سہولت سے فائدہ حاصل کر لینا چاہیے ؟

2. اگر یہ جائز ہے تو کس طریقہ سے اور ناجائز ہے تو کس طریقہ سے ؟

3.اگر کسی ملازم کو اس انشورنس سہولت سے کچھ ماہ بعد فائدہ نظر آرہا ہو ، اور وہ سوچے کہ بالکل ایک دو ماہ پہلے انشورنس کے لیے اپلائی کروں تاکہ کم سے کم پیسےکٹیں، جب کہ انشورنس کمپنی نے بچہ کی پیدائش کے طے شدہ اخراجات مکمل ہی دینے ہیں ،تو کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

1-2.واضح رہے کہ انشورنس یا تکافل دراصل سود،قمار(جوا) اور غرر(دھوکہ)پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز ہے۔

جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس میں دی جانے والی رقم کی حیثیت صحیح تر قول کے مطابق قرض کی ہےاور قرض میں دی ہوئی رقم پر زیادہ رقم وصول کرناسود کہلاتا ہےاور چوں کہ انشورنس یا تکافل میں ایک مخصوص رقم جمع کرانے پر حادثے کی صورت میں کمپنی اس رقم سے زائد رقم دینے کی پابند ہوتی ہے،اس لیے یہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوا۔

اسی طرح قمار(جوا)اس عقدِ معاوضہ کو کہا جاتا جو کہ مبہم ہو،اور چوں کہ اس عقد میں نقصان یا حادثے کی بنیاد پر کمپنی جمع کرائی ہوئی رقم سے اضافی رقم ادا کرتی ہے،جب کہ نقصان یا حادثہ کا ہونا ایک امرِ مبہم(غیر یقینی،غیر واضح) ہے،اور چوں کہ یہ ممکن ہے کہ جمع کرانے والے کو اپنی رقم سے زیادہ رقم مل جائے اور یہ بھی ممکن ہےکہ اس کو ایک پائی بھی نہ ملے،اس لیے اس میں غَرر(دھوکہ) بھی پایا گیا،اس لیے ان تمام مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے انشورنس یا تکافل کا معاملہ بہر حال ناجائز ہے۔

3.کم پیسے جمع کرواکر زیادہ پیسے وصول کرناچوں کہ سود ہے،اس لیے ایسا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

"الفتاوی الهندية"میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال."

(ص:١١٧،ج:٣،کتاب البیوع،الباب التاسع،ط:دار الفکر،بیروت)

وفيه ايضا:

"قال محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف إن أبا حنيفة رحمه الله تعالى كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."

(ص:٢٢٠،ج:٣،کتاب البیوع،الباب الثامن عشر فی السلم،ط:دار الفکر،بیروت)

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"وفي الأشباه ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام."

‌‌"(قوله ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به."

(ص:١٦٦،ج:٥،کتاب البیوع،مطلب ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام،ط:ایج ایم سعید)

"الفقه الإسلامي وأدلته"میں ہے:

"أما‌‌ التأمين التجاري أو التأمين ذو القسط الثابت: فهو غير جائز شرعا، وهو رأي أكثر فقهاء العصر،... يكاد ينحصر في أمرين: هما الغرر والربا...والربا واضح بين العاقدين: المؤمن والمستأمن، لأنه لا تعادل ولا مساواة بين أقساط التأمين وعوض التأمين، فما تدفعه الشركة قد يكون أقل أو أكثر، أو مساويا للأقساط، وهذا نادر والدفع متأخر في المستقبل. فإن كان التعويض أكثر من الأقساط، كان فيه ربا فضل وربا نسيئة، وإن كان مساويا ففيه ربا نسيئة، وكلاهما حرام...أما الغرر: فواضح في التأمين؛ لأنه من عقود الغرر: وهي العقود الاحتمالية المترددة بين وجود المعقود عليه وعدمه، وقد ثبت في السنة حديث صحيح، رواه الثقات عن جمع من الصحابة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الغرر."

(ص:٣٤٢٣،ج:٥،‌‌القسم الثالث: العقود أو التصرفات المدنية المالية،‌‌حكم التأمين مع شركات التأمين في الإسلام ،ط:دار الفكر،بيروت)

’’کفایت المفتی‘‘ میں ہے:

’’اشیاء کا بیمہ اس وجہ سے ناجائز ہے کہ اس پر قمار کی تعریف صادق آتی ہے کہ یا تو بیمہ دار نے جو رقم بھری ہے،وہ بھی گئی یا پھر وہ رقم اپنے ساتھ اور رقم بھی لے آئے گی۔۔۔الحاصل یہ کہ بیمہ کا کاروبار سود اور قمار پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔‘‘

(ص:٨٢،ج:٨،کتاب الربوا،دوسراباب:بیمہ کرانا،ط:دار الاشاعت،کراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501100279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں