بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کے ناجائز ہونے کی وجہ


سوال

لائف انشورنس کروانا ٹھیک ہے یا نہیں؟ اس میں سود کا احتمال پایا جاتا ہے یا نہیں؟اس کی وضاحت کردیں!

جواب

واضح رہے کہ از  روئے  شرع مروج انشورنس اور بیمہ کی تمام پالیسیوں  ( یعنی لائف انشورنس، ہیلتھ انشورنس، ایجوکیشن انشورنس، میرج انشورنس، گاڑی وغیرہ کی انشورنس یا اس کے علاوہ دیگر پالیسیوں)  کا طریقہ یہ ہے کہ  انشورنس کرانے والا معاہدہ کے تحت ماہانہ کچھ رقم انشورنس کرنے والے ادارے کو دیتا ہے، اگر اتفاق سے اس کا نقصان ہوجائے تو انشورنس ادارہ یا کمپنی اس نقصان کی تلافی کرتا ہے، اور اس کی جمع کی ہوئی رقم سے زیادہ رقم دیتی ہے اور اگر مقررہ مدت میں نقصان نہیں ہوا یا اس آدمی کا انتقال نہیں ہوا تو بعض صورتوں میں اس کی جمع کی ہوئی رقم ہی اس کو واپس کردی جاتی ہے ، اور بعض صورتوں میں اضافی رقم ملاکر واپس کی جاتی ہے، اور بعض صورتوں میں جمع کی ہوئی رقم بھی واپس نہیں کی جاتی۔انشورنس کی یہ تمام صورتوں مندرجہ ذیل شرعی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے از روئے شرع جائز نہیں  ہیں:

1: سود، کیوں کہ حادثہ اور موت واقع ہونے کی صورت میں پریمییم کے طور پر جمع کی گئی رقم سے زیادہ رقم ملتی ہے، یہ سود ہے۔

2: جوا، کیوں کہ یہاں رقم داؤ پر لگادی جاتی ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس پراضافہ مل جائے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ اصل رقم ہی ڈوب ہوجائے۔

3:دھوکا، کیوں کہ اس کا انجام غیر یقینی ہے، صورتِ حال واضح نہیں ہے۔

اور مذکورہ بالا تینوں چیزیں از روئے قرآنِ کریم و حدیث شریف ممنوع و ناجائز ہیں۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]

ترجمہ: اے ایمان والوں! شراب، اور جوا اور بت اور فال کے تیرسب شیطان کے گندے  کام ہیں،سو بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔

صحیح مسلم  میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»."

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺ نے سود کھانے والے، اور کھلانے والے اور (سودکاحساب) لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے،اور فرمایا: کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔

(صحیح مسلم، کتاب لمساقات، ج:3، ص:1219، ط:داراحیاءالتراث العرب)

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي) میں ہے:

" {وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} (188) 

الْخِطَابُ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَتَضَمَّنُ جَمِيعَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَعْنَى: لَا يَأْكُلُ بَعْضكُمْ مَالَ بَعْضٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. فَيَدْخُلُ فِي هَذَا: الْقِمَارُ وَالْخِدَاعُ وَالْغُصُوبُ وَجَحْدُ الْحُقُوقِ، وَمَا لَاتَطِيبُ بِهِ نَفْسُ مَالِكِهِ، أَوْ حَرَّمَتْهُ الشَّرِيعَةُ وَإِنْ طَابَتْ به نفس مالكه، كهر الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ وَأَثْمَانِ الْخُمُورِ وَالْخَنَازِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ...

وَأُضِيفَتِ الْأَمْوَالُ إِلَى ضَمِيرِ المنتهى لَمَّا كَانَ كُلُّ وَاحِدٌ مِنْهُمَا مَنْهِيًّا وَمَنْهِيًّا عنه، كما قال:" تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ ". وَقَالَ قَوْمٌ: الْمُرَادُ بِالْآيَةِ" وَلا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ «3» " أَيْ فِي الْمَلَاهِي وَالْقِيَانُ وَالشُّرْبُ وَالْبَطَالَةُ، فَيَجِيءُ عَلَى هَذَا إِضَافَةُ الْمَالِ إِلَى ضَمِيرِ الْمَالِكِينَ. الثَّالِثَةُ- مَنْ أَخَذَ مَالَ غَيْرِهِ لَا عَلَى وَجْهِ إِذْنِ الشَّرْعِ فَقَدْ أكله بالباطل، ومن الأكل بالباطل أن يقتضى الْقَاضِي لَكَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ مُبْطِلٌ، فَالْحَرَامُ لَا يَصِيرُ حَلَالًا بِقَضَاءِ الْقَاضِي، لِأَنَّهُ إِنَّمَا يَقْضِي بِالظَّاهِرِ. وَهَذَا إِجْمَاعٌ فِي الْأَمْوَالِ."

(سورة البقرة، رقم الآية:188، ج:2، ص:338، ط:دارالكتب المصرية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144207201025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں