حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے انسان نہیں تھا ،حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان تھےتو فرشتوں کو خونریزی کا علم کیسے ہوا؟جب کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے انسان نہیں بلکہ جنات تھیں۔
اس کا جواب جمہور محققین کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہی فرشتوں کو انسان کے حالات اور اس کے ہونے والے معاملات بتلادیئےتھے، جیسا کہ بعض آثار میں ہے کہ جب اللہ تعالی نے فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو خلیفۂ زمین بنانے کا ذکر فرمایا، تو فرشتوں نے اللہ تعالی ہی سے اس خلیفہ کا حال دریافت کیا، اللہ سبحانہ وتعالی ہی نے ان کو بتلایا ،اس سے فرشتوں کو تعجب ہو ا تو فساد اورخوں ریزی کرنے کے باجود نیابت دینے کے بارے میں سوال کیا۔
تفسیر معارف القرآن از مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ میں ہے:
"دوسرا سوال اس جگہ یہ ہے کہ فرشتوں کی اس کی کیسے خبر ہوئی کہ انسان خوں ریزی کرے گا،کیا انہیں علم غیب تھا؟ یا محض اٹکل اور تخمینہ سے انہوں نے یہ سمجھا تھا؟
اس کا جواب جمہور محققین کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہی ان کو انسان کے حالات اور اس کے ہونے والے معاملات بتلادیئےتھے، جیسا کہ بعض آثار میں ہے کہ جب اللہ تعالی نے فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو خلیفۂ زمین بنانے کا ذکر فرمایا، تو فرشتوں نے اللہ تعالی ہی سے اس خلیفہ کا حال دریافت کیا، اللہ سبحانہ وتعالی ہی نے ان کو بتلایا ،اس سے فرشتوں کو تعجب ہو ا کہ جب انسا ن کا یہ حال ہے کہ وہ فساد وخوں ریزی بھی کرے گا تو اس کو نیابت زمین کےلئے منتخب فرمانا کس حکمت پر مبنی ہے۔
(سورت بقرۂ، آیت : 30، ج:1، ص:181، ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)
تفسیر الطبری میں ہے:
"وعن أبي صالح [عن ابن عباس، وعن مرة، عن ابن مسعود] وعن ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، أن الله جل ثناؤه قال للملائكة: {إني جاعل في الأرض خليفة}.
قالوا: ربنا وما يكون ذلك الخليفة؟ قال يكون له ذرية يفسدون في الأرض ويتحاسدون ويقتل بعضهم بعضا.
فكان تأويل الآية على هذه الرواية التي ذكرناها عن ابن مسعود وابن عباس: إني جاعل في الأرض خليفة مني يخلفني في الحكم بمن خلقي، وذلك الخليفة هو آدم ومن قام مقامه في طاعة الله، والحكم بالعدل بين خلقه. وأما الإفساد وسفك الدماء بغير حقها فمن غير خلفائه، ومن غير آدم ومن قام مقامه في عباد الله؛ لأنهما أخبرا أن الله تعالى ذكره قال لملائكته إذ سألوه: ما ذاك الخليفة؟: إنه خليفة تكون له ذرية يفسدون في الأرض ويتحاسدون ويقتل بعضهم بعضا. فأضاف الإفساد وسفك الدماء بغير حقها إلى ذرية خليفته دونه، وأخرج منه خليفته."
(القول فی تفسیر السورة التی یذکر فیھا البقرة، القول فی تأویل قوله :خلیفه، ج:1، ص:480، ط: دار هجر- مصر)
الروح لابن القیم رحمہ اللہ میں ہے:
"ففي تفسير أبي مالك وأبي صالح، عن ابن عباس؛ وعن مُرَّة، عن ابن مسعود؛ وعن ناسٍ من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: «لما فرَغ الله من خلق ما أحبَّ استوى على العرش، فجعل إبليسَ على مُلك سماء الدنيا، وكان من قبيلة من الملائكة يقال لهم: «الجن»، وإنما سُمُّوا «الجنَّ»؛ لأنهم خُزَّانُ الجنَّة. وكان إبليسُ مع ملكه خازنًا، فوقع في صدره، وقال: ما أعطاني الله هذا إلا لمزيد لي ــ وفي لفظ: لمزيةٍ لي ــ على الملائكة. فلما وقع ذلك الكبرُ في نفسه اطَّلع الله على ذلك منه، فقال الله للملائكة:{إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً} [البقرة: 30].
قالوا: ربَّنا، وما يكون حال الخليفة؟ قال: تكون له ذريةٌ يُفسدون في الأرض، ويتحاسدون، ويقتل بعضُهم بعضًا. قالوا: ربنا
{أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 30]يعني: من شأن إبليس."
(المسئلة الثامنة عشرة، فصل: الدليل على أن خلق الأرواح متأخر عن خلق أبدانها، ج:2، ص:504، ط:دار ابن حزم)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605100991
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن