میں نے اپنی بیٹی کی شادی ستمبر 2022ء میں کی تھی، مگر اب تک اس کا شوہر ازدواجی تعلق قائم کرنے میں ناکام رہا ہے، اس وجہ سے ہم نے اسے بہت دفعہ سمجھایا کہ آپ اپنا علاج کروالیں، مگر وہ اس بات کو سنجیدہ نہیں لیتا تھا، بہت دباؤ ڈالنے کے بعد تقریبًا ڈیڑھ سال کے بعد 2024ء میں اس نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا، ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں تجویز کیں، مگر وہ دوائیاں کھانے کے لیے تیار نہیں ، ان معاملات کی وجہ سے میری بیٹی بہت ہی ڈپریشن میں ہے، جس کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب رہتی ہے، میری بیٹی کی عمر صرف بیس سال ہے ، ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ یہ سب بیماری اسے ان معاملات کی وجہ سے ہے، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ اب ہم لوگ کیا کریں؟
واضح رہے کہ اگر شوہر نامرد ہے اور ازدواجی حقوق ادا کرنے سے بالکل قاصر ہے ،اور بیوی بھی اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اولاًباہمی رضامندی سے طلاق یا خلع لےلے، ورنہ ایسے شخص کی بیوی کو عدالت کے ذریعہ اپنا نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے بشرطیکہ نکاح سے پہلے اسے اپنے شوہر کے عنین (نامرد)ہونے کا علم نہ ہو، اور نکاح کے بعد شوہر کے بارے میں معلوم ہونے پر اس نے اس شوہر کے ساتھ رہنے پر رضامندی کا اظہار بھی نہ کیا ہو۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہو تو پھر اس سے طلاق یا خلع لے لے، اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو پھر عدالت سے اپنا نکاح مندرجہ ذیل طریقہ کے مطابق فسخ کروادے۔
عنین(نامرد) سے آزادی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ عورت مسلمان جج یا قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کرے کہ میرا شوہر عنین یعنی نا مردہے اور آج تک اس نے ایک مرتبہ بھی میرا حق ادا نہیں کیا، اس لیے میں اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، مجھے شرعی اصولوں کے مطابق اس کے نکاح سے علیحدہ کر دیا جائے، قاضی شوہر سے اس بات کی تحقیق کرے اور وہ خود قبول کرے کہ وہ آج تک اس عورت سے وطی پر قدرت نہیں پا سکا تو اسے ایک سال علاج کی مہلت دے گا۔
اور ایک سال علاج کے بعد بھی افاقہ نہ ہو اور ایک مرتبہ بھی وطی پر قادر نہ ہو تو عورت دوبارہ قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور اس کے ساتھ رہنے پر رضامند نہ ہو تو قاضی شوہر سے اس بات کی تحقیق کرے ،مرد عورت کی بات کی تصدیق کرتا ہو تو قاضی مرد کو کہے کہ اسے طلاق دے کر علیحدہ کر دے، اگر وہ طلاق دے تو بہتر، ورنہ قاضی عورت کو اس نکاح سے علیحدہ ہونے کا اختیار دے ، اور عورت اس اختیار کو قبول کر کے اس نکاح سے علیحدہ ہو جائے، اس کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:
"عن أبيه، عن عبد الله، قال: "يؤجل العنين سنة، فإن وصل إليها وإلا فرق بينهما، ولها الصداق."
(المعجم الكبير للطبراني، ج: 9، ص: 343، ط: مكتبة ابن تيمية)
المحیط البرہانی میں ہے:
"إذا وجدت المرأة زوجها عنيناً، فلها الخيار إن شاءت أقامت معه كذلك، وإن شاءت خاصمته عند القاضي وطلبت الفرقة، فإن خاصمته فالقاضي يؤجله سنة وتعتبر السنة عند أكثر المشايخ بالأيام."
(كتاب النكاح، الفصل الثالث و العشرون في العنين و المجبوب و الخصي، ج: 3، ص: 173، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا رفعت المرأة زوجها إلى القاضي وادعت أنه عنين وطلبت الفرقة فإن القاضي يسأله هل وصل إليها أو لم يصل فإن أقر أنه لم يصل أجله سنة سواء كانت المرأة بكرا أم ثيبا، وإن أنكر وادعى الوصول إليها فإن كانت المرأة ثيبا فالقول قوله مع يمينه أنه وصل إليها كذا في البدائع.
فإن حلف بطل حقها، وإن نكل يؤجل سنة كذا في الكافي، وإن قالت: أنا بكر نظر إليها النساء وامرأة تجزئ والاثنتان أحوط وأوثق فإن قلن: إنها ثيب فالقول قول الزوج مع يمينه كذا في السراج الوهاج."
"جاءت المرأة إلى القاضي بعد مضي الأجل وادعت أنه لم يصل إليها وادعى الزوج الوصول، فإن كانت ثيبا في الأصل كان القول قوله مع اليمين، فإن حلف بطل حقها، وإن نكل خيرها القاضي."
(کتاب الطلاق، الباب الثاني عشر في العنین، ج:1، ص:522، ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101252
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن