بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے انشورنس پالیسی لینے کا حکم


سوال

انکم ٹیکس سے بچنے کے  لیے انشورنس پالیسی اختیار کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہےاز روئے شرع مروج انشورنس اور بیمہ کی تمام پالیسیاں (لائف انشورنس، ہیلتھ انشورنس، ایجوکیشن انشورنس، میرج انشورنس، گاڑی وغیرہ کی انشورنس یا اس کے علاوہ دیگر پالیسیاں) سود اور جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہیں، اور سود اور جوا کرنے والوں پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے انشورنس پالیسی لیناجائز نہیں ہے، کیوں کہ سودی معاملہ کرنایا جوے پر مشتمل کوئی بھی معاملہ کرنا از رُوئے قرآن وحدیث حرام ہے، اگر حکومتی ٹیکس ظالمانہ ہےیعنی ضرورت سے زائد ٹیکس حکومت وصول کرتی ہے تو اس صورت میں زائد رقم وصول کرنے والے افراد اپنے ظلم کی وجہ سے گناہ گار ہیں، تاہم مذکورہ  ظالمانہ ٹیکس سے بچنے کے لیے کوئی حرام راستہ اختیار کرنا یعنی سودی معاملہ کرنا یا جوے پر مشتمل معاملہ کرناجائز نہ ہوگا،شریعت مطہرہ میں ایسے معاملات میں ایسی تدبیر اختیار کی گنجائش نہیں ہے جس میں کسی ناجائز امر کا ارتکاب کرنا پڑتاہو۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة: 90]

ترجمہ:" اے ایمان والوں! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کی تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہے، سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

(سورۃ المائدۃ، رقم الآیۃ:90، ترجمہ: بیان القرآن)

صحیح مسلم میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»."

(صحیح مسلم، کتاب لمساقات، ج:3، ص:1219، ط:داراحیاءالتراث العربی)

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺ نے سود کھانے والے، اور کھلانے والے اور (سودکاحساب) لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے،اور فرمایا: کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي) میں ہے:

" {وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} (188) 

الْخِطَابُ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَتَضَمَّنُ جَمِيعَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَعْنَى: لَا يَأْكُلُ بَعْضكُمْ مَالَ بَعْضٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. فَيَدْخُلُ فِي هَذَا: الْقِمَارُ وَالْخِدَاعُ وَالْغُصُوبُ وَجَحْدُ الْحُقُوقِ، وَمَا لَاتَطِيبُ بِهِ نَفْسُ مَالِكِهِ، أَوْ حَرَّمَتْهُ الشَّرِيعَةُ وَإِنْ طَابَتْ به نفس مالكه، كهر الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ وَأَثْمَانِ الْخُمُورِ وَالْخَنَازِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ...

وَأُضِيفَتِ الْأَمْوَالُ إِلَى ضَمِيرِ المنتهى لَمَّا كَانَ كُلُّ وَاحِدٌ مِنْهُمَا مَنْهِيًّا وَمَنْهِيًّا عنه، كما قال:" تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ ". وَقَالَ قَوْمٌ: الْمُرَادُ بِالْآيَةِ" وَلا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ «3» " أَيْ فِي الْمَلَاهِي وَالْقِيَانُ وَالشُّرْبُ وَالْبَطَالَةُ، فَيَجِيءُ عَلَى هَذَا إِضَافَةُ الْمَالِ إِلَى ضَمِيرِ الْمَالِكِينَ. الثَّالِثَةُ- مَنْ أَخَذَ مَالَ غَيْرِهِ لَا عَلَى وَجْهِ إِذْنِ الشَّرْعِ فَقَدْ أكله بالباطل، ومن الأكل بالباطل أن يقتضى الْقَاضِي لَكَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ مُبْطِلٌ، فَالْحَرَامُ لَا يَصِيرُ حَلَالًا بِقَضَاءِ الْقَاضِي، لِأَنَّهُ إِنَّمَا يَقْضِي بِالظَّاهِرِ. وَهَذَا إِجْمَاعٌ فِي الْأَمْوَالِ."

(سورة البقرة، رقم الآية:188، ج:2، ص:338، ط:دارالكتب المصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں