بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اینرجی ڈرنک(energy drink) پینے کا حکم


سوال

اینرجی ڈرنک (energy drink) پینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کھانے پینے کی وہ اشیاء جن کا حکم شریعت میں صراحتاً موجود نہ ہو تو ان کے حلال اور حرام ہونے کا مدار ان کے اجزاء ترکیبیہ پر ہوتا ،ایسے اشیاء کے متعلق  اصول یہ ہے کہ جب تک ان میں کسی حرام چیز کے موجود ہونے کی یقینی دلیل یا ظنِ غالب قائم نہ ہوجائے تب تک اس کو حرام نہیں کہا جائے گا، تاہم اگر کسی دلیل کی وجہ  سے اس میں شبہ پیدا ہوگیا ہو، لیکن یقینی یا ظن غالب کے درجے میں دلیل نہ ہو تو  اس شبہ کی وجہ سے اس سے احتیاط کرنا چاہیے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر اینرجی ڈرنک  میں کسی حرام چیز کے موجود ہونے کی یقینی دلیل یا ظنِ غالب قائم ہوجائے تو اس کا پینا حرام ہے اور بیچنا بھی جائز نہیں، البتہ اگر اینرجی ڈرنک میں حرام چیز کے موجود ہونے کا یقین یا  ظنِ غالب  نہ ہو تو اس کو پینا اور بیچنا جائز ہے  ، نیز اگر اس میں کسی وجہ سے شبہ پیدا ہوجائے جوکہ یقین یا ظنِ غالب تک نہ پہنچتاہو تو اس شبہ کی وجہ سے اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر" میں ہے:

" واعلم أن الأصل في الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى {هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: ٢٩] وقال {كلوا مما في الأرض حلالا طيبا} [البقرة: ١٦٨] وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة."

( كتاب الأشربة،ج:2،ص:568،ط: دار إحياء التراث العربي)

موسوعۃ الفقہ الاسلامی میں ہے:

"حكم الأطعمة:الأصل في جميع الأطعمة الحل إلا النجس، والضار، والخبيث، والمسكر، والمخدر، وملك الغير.فالنجس كله خبيث وضار، فهو محرم."

(الباب الثالث عشر كتاب الأطعمة والأشربة،باب الأطعمة،ج:4،ص:283،ط:بیت الافکار الدولیۃ)

الوجیز فی ایضاح القواعد الفقہیۃ الکلیۃ میں ہے:

"كل شيء كره أكله والانتفاع به على وجه من الوجوه فشراؤه وبيعه مكروه، وكل شيء لا بأس بالانتفاع به فلا بأس ببيعه".

(المقدمة السابعة: نشأن القواعد الفقهية وتدوينها وتطورها،ج:1،ص:52،ط:مؤسسة الرسالة العالمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں