بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویزہ داروں کے ائیرپورٹ پر امریگشن والوں کو رشوت دینے کا حکم


سوال

ایک آدمی لیگل طریقے سے ویزوں کا کام کرتا ہے لیکن ائیرپورٹ پر آدمی کو لاتے وقت اسلام آباد میں بھی اور ادھر ملائیشیا میں بھی امیگریشن  والے بغیر رشوت کے آنے نہیں دیتے،  اس حالت میں رشوت دینے والا گویا مجبور ہوتا ہے،  کیا اس صورت میں  بوجہ مجبوری رشوت دینے والا گناہ گار ہوگا یا نہیں؟ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  رشوت دے کر نا جائز اور غلط طریقے سے اپنے مقصد کو حاصل کرنا ، یا کسی صاحب حق کا حق چھیننا  سخت گناہ ہے،حدیث کی رُو سے ایسا شخص ملعون قرار دیا گیا ہے، تاہم  اگر کسی شخص کو رشوت کے بغیر اپنا حق نہ مل رہا ہوتو بوجہ مجبوری ایسی حالت میں رشوت دے کر اپنے حق کو وصول کرنے کی گنجائش ہے ، البتہ رشوت لینے والے کے لیےرشوت لینا بہر حال ناجائز اور حرام ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر حکومت کی جانب سےویزہ والوں کو ائیرپورٹ پر اپنے کلائنٹ کو لانے  کی اجازت ہو اور حکومت کی جانب سےاس  پر کوئی ٹیکس وغیرہ بھی مقرر نہ ہو تو متعلّقہ  امیگریشن  والوں کا اپنے لیے رقم لینا شرعًا رشوت کے زمرے میں داخل ہے، تاہم اگر رشوت نہ دینے کی صورت میں دینے والے کو اپنےحق سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہو، اور اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی دوسرا راستہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں مجبوری کے تحت متعلّقہ امیگریشن   والوں کو رشوت دینے کی گنجائش ہے،  البتہ لینے والے کے لیے بہر صورت رشوت لینا حرام ہے، اور وہ مروی شدہ روایات میں ذکرکردہ وعیدوں کے مستحق ہوں گے۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال : لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي . رواه أبو داود وابن ماجه".

(کتاب القضاء والامارۃ، باب رزق الولاة وهداياهم ، الفصل الأول، رقم الحدیث:3753، ج:2، ص:354، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے رشوت لینے اور دینے والے پر۔"

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد وجمعها رشا مثل سدرة وسدر...

وفي الخانية الرشوة على وجوه أربعة منها ما هو حرام من الجانبين، وذلك في موضعين: أحدهما إذا تقلد القضاء بالرشوة حرم على القاضي والآخذ وفي صلح المعراج تجوز المصانعة للأوصياء في أموال اليتامى، وبه يفتى ثم قال من الرشوة المحرمة على الآخذ دون الدافع ما يأخذه الشاعر وفي وصايا الخانية قالوا بذل المال لاستخلاص حق له على آخر رشوة. الثاني إذا دفع الرشوة إلى القاضي ليقضي له حرم من الجانبين سواء كان القضاء بحق أو بغير حق، ومنها إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أو ماله فهو حرام على الآخذ غير حرام على الدافع، وكذا إذا طمع في ماله فرشاه ببعض المال ومنها إذا دفع الرشوة ليسوي أمره عند السلطان حل له الدفع ولا يحل للآخذ أن يأخذ".

(کتاب القضاء،أخذ القضاء بالرشوة ، ج:6، ص:285، ط:دارالکتاب الاسلامی)

شرح المجّلۃ للخالد الاتاسی میں ہے:

"إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أوماله، فهو حرام على الآخذ غير حرام على الدافع".

(الكتاب السادس عشر في القضاء الفصل الثاني، مادة:1796، ج:6، ص:40، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں