بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امداد کی رقم کو اپنی ذاتی استعمال میں لانا


سوال

میرے پاس سیلاب زدگان کی امداد کے حوالے سے رقم جمع تھی، میں اس رقم کو صحیح حق داروں تک پہنچانے کے لیے خود متاثرہ علاقہ جات میں گیا، جہاں کوئی بھی تنظیم کام نہیں کر رہی ،تو کیا اس سفر پر آنے والا خرچ اس امداد میں سے لے سکتا ہوں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جو لوگ سیلاب  زدگان کی امداد کے نام پر   نقدی و غیر نقدی ( زکوة، خیرات، و صدقات کی مد میں) جمع کر رہے ہیں، وہ  ان کے پاس امانت ہے، اور ان پر لازم ہےکہ متاثرین تک مذکورہ امداد پہنچائیں،  امداد میں سے کچھ بھی سفر کے اخراجات میں لگاناشرعا جائز نہیں ہے، البتہ  اگر  امداد  دینے والوں سے  اس  مد میں علیحدہ سے زکوۃ کے علاوہ سے فنڈ لیا جائے تو ان اخراجات کو اس رقم سے پورا کیا جاسکتا ہے۔

البحر الرائق میں ہے :

"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك ‌لنفسه ‌شيئا اهـ"

(کتاب الزکات،شروط اداء الزکات،ج:۲،ص:۲۲۷،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع".

(کتاب الزکوٰۃ،ج:2،ص: 269، ، ط: سعید)

الموسوعہ الفقہیہ   میں ہے:

"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان".

(  الوکالۃ ، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال،ج:45،ص: 87،، ط: طبع الوزارة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں