"ايمل" اور "امايه "نام کا مطلب بتا دیں۔ اسلامی لحاظ سے یہ نام رکھنا کیسا ہے؟
"اَیمَل " فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا معنیٰ "آرزو اور خواہش" ہے، اور یہ نام رکھنا جائز ہے، جب کہ "اَمایہ " لفظ باوجود تلاش كے كسي لغت ميں نهيں مل سكا، البته اسی نام سے اندلس ( موجودہ اسپین) کا ایک گاؤں بھی موسوم ہے ،جسےکیتھولک عیسائیت کے نزدیک بڑی اہمیت حاصل ہے۔اس لیے یہ نام رکھنا درست نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ بچی کا نام صحابیات رضی اللہ عنہن اجمعین یا نیک مسلمان خواتین میں سے کسی کے نام پر رکھا جائے۔
المسالک والممالک للبکری میں ہے:
"وجعل الجزء الثالث من مدينة طركونة وأضاف إليها مدينة سرقسطة وأشقة ولاردة وطرطوشة وتطيلة وأعمال بلد ابن شانجو كلّها وبلد بليارش وبرشلونة وجرندة ومدينة أنبوريش ومدينة بنبلونة ومدينة أوقة ومدينة قلهرّة ومدينة طرسونةومدينة أَماية."
(ذكر بلاد الأندلس وخواصّها والمشهور من مدنها، 892/2، ط:دار الغرب الإسلامي)
قادۃ فتح الاندلس میں ہے:
"أَماية Amaya:
إحدى مدن الأندلس، وهي إحدى مدن الجزء الثالث، التي من مدنها برشلونة وبَنْبُلُوْنَة."
(المدن ،أَماية Amaya، ج:1، ص:68،ط:مؤسسة علوم القرآن)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144501100800
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن