بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام سے پہلے سلام پھیرنے کی صورت میں مقتدی کی نماز کاحکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ کرام اس مسئلہ میں کہ اگر مقتدی بغیر کسی عذر کے امام سے قبل ہی سلام پھیر دے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ یعنی ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے؟ اور دوسرا امام کی اقتدا شرائط نماز میں سےہے تو کیا ان افعال کے مرتکب کی نماز واجب الاعادہ ہوگی یا نہیں؟

جواب

اگر کسی مقتدی نے امام سے پہلے سلام پھیر دیا، اس کے بعد امام نے سلام پھیرا  تو مقتدی کی نماز تو ہوگئی، البتہ مقتدی کے لیے ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، تاہم نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے،  ہاں اگر سہواً یا کسی عذر  کی وجہ سے  یا وضو ٹوٹ  جانے کا خوف ہو یا سخت مجبوری کی وجہ سے سلام پھیرا تو نماز مکروہ نہیں ہوگی۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"ولو أتمه قبل إمامه فتكلم جاز وكره.

(قوله: لو أتمه إلخ) أي لو أتمّ المؤتم التشهد، بأن أسرع فيه وفرغ منه قبل إتمام إمامه فأتى بما يخرجه من الصلاة كسلام أو كلام أو قيام جاز: أي صحت صلاته؛ لحصوله بعد تمام الأركان؛ لأن الإمام وإن لم يكن أتم التشهد لكنه قعد قدره؛ لأن المفروض من القعدة قدر أسرع ما يكون من قراءة التشهد وقد حصل، وإنما كره للمؤتم ذلك؛ لتركه متابعة الإمام بلا عذر، فلو به كخوف حدث أو خروج وقت جمعة أو مرور مار بين يديه فلا كراهة، كما سيأتي قبيل باب الاستخلاف (قوله: فلو عرض مناف) أي بغير صنعه كالمسائل الاثني عشرية وإلا بأن قهقه أو أحدث عمداً فلاتفسد صلاة الإمام أيضاً كما مر." (رد المحتار1/ 525ط:سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں