بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام نہ ہونے کی صورت میں عام آدمی کا نماز پڑھانے کا حکم


سوال

میرے گاؤں کی مسجد کے امام دو ماہ پہلے وفات پا گئے تھے، ایک مقامی بندہ جو کہ حافظ بھی نہیں ہے دو ماہ سے نماز پڑھا رہا ہے،  کل گاؤں میں ایک فوتگی کے موقع پر ایک مہمان حافظ آیا،  لوگوں نے اس کو نماز پڑھانے کے لیے کہہ دیا،  حال آں کہ جو بندہ  پہلے نماز پڑھا رہا تھا وہ نماز پڑھانے کے لیے اٹھنے لگا تھا،  آیا  اب  جس بندے نے نماز پڑھائی ہے، اس کا نماز پڑھانے کا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں!

جواب

از رُوئے شرع امامت کا زیادہ مستحق شخص وہ ہے، جو نماز کے مسائل اچھی طرح سے جانتا ہو، (یعنی عالم ہو)  اور نماز میں جس قدر قراءت کرنا مسنون ہے اتنی مقدار اسے یاد  بھی ہو ، اور  متقی پرہیزگار ہو، اس  کے بعد وہ شخص ہے جو قرآن مجید اچھا پڑھتا ہو،(یعنی عمدہ آواز میں پڑھتا ہو) اورقراءت تجوید کے موافق ہو،پھر وہ شخص جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو،  پھر وہ شخص زیادہ مستحق ہے جو جس کی عمر زیادہ ہو ۔

بصورتِ  مسئولہ فی نفسہ تو امامت کا زیادہ حق دار  عالم ہی ہے، اور ایسے شخص کو امام منتخب بھی کرنا چاہیے، تاہم جب مسجد میں  فی الحال امام کا انتخاب نہیں ہوا ہے تو کوئی صحیح قرآن مجید پڑھنے والا اورنماز کی حد تک مسائل سے واقف کوئی  غیرعالم  نماز پڑھائے تو یہ بھی درست ہے،اور ان کو چاہیے کہ اگر مسجد میں کوئی  عالم  یا ایسا حافظ ہے  جو مسائلِ نماز سے واقف ہے، تو اس کو ہی  نماز پڑھانے کے  لیے آگے کیاکرے۔

باقی سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق اگر مذکورہ شخص صحیح قرآن پڑھنے  والا ہے، اور اس کے نماز پڑھانے کے  لیے کھڑے ہونے کے بعد لوگوں کا کسی  حافظ کو نماز کے  لیے کہنا مناسب نہیں تھا، کیوں کہ مذکورہ عمل کسی مسلمان کی سبکی کا باعث ہے جو نہیں کرنا چاہیے۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ امامت کے حق دار ہونے کی مذکورہ ترتیب اس وقت ہے جب کہ امام کا تقرر نہ کیا گیا ہو، اگر  ایسا شخص  باقاعدہ امام مقرر کرلیا گیا ہو  جس میں امامت کے بنیادی اوصاف موجود ہوں  (یعنی مسلمان، عاقل، بالغ، تجوید کے ساتھ اتنا قرآن پڑھنا جانتا ہو جس سے مسنون قراءت ادا ہوجائے اور طہارت و نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو) تو پھر کسی بڑے عالم کے آنے کے باوجود وہی شخص امامت کا حق رکھے گا جو باقاعدہ امام مقرر کردیا گیا ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و الأحق بالإمامة) تقديمًا بل نصبًا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات (ثم الأسن) أي الأقدم إسلامًا.

(قوله: وقيل: سنة) قائله الزيلعي، وهو ظاهر المبسوط كما في النهر؛ ومشى عليه في الفتح. قال: وهو الأظهر لأن هذا التقديم على سبيل الأولوية؛ فالأنسب له مراعاة السنة (قوله: ثم الأحسن تلاوة وتجويدا) أفاد بذلك أن معنى قولهم أقرأ: أي أجود، لا أكثرهم حفظا وإن جعله في البحر متبادرا، ومعنى الحسن في التلاوة أن يكون عالما بكيفية الحروف والوقف وما يتعلق بها قهستاني (قوله: أي الأكثر اتقاء للشبهات) الشبهة: ما اشتبه حله وحرمته، ويلزم من الورع التقوى بلا عكس. والزهد: ترك شيء من الحلال خوف الوقوع في الشبهة، فهو أخص من الورع، وليس في السنة ذكر الورع، بل الهجرة عن الوطن. فلما نسخت أريد بها هجرة المعاصي بالورع، فلا تجب هجرة إلا على من أسلم في دار الحرب، كما في المعراج ."

(كتاب الصلوة، باب الامامة، ج:1، ص:557، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقًا.

(قوله: مطلقًا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه. وفي التتارخانية: جماعة أضياف في دار نريد أن يتقدم أحدهم ينبغي أن يتقدم المالك، فإن قدم واحدا منهم لعلمه وكبره فهو أفضل، وإذا تقدم أحدهم جاز لأن الظاهر أن المالك يأذن لضيفه إكرامًا له." 

(كتاب الصلوة، باب الامامة، ج:1، ص:557، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144212200123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں