بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا دوران نماز خلیفہ مقرر کرنے کا حکم


سوال

 اگر امام کو دوران  نماز نکسیر آجائے تو وہ کیا کرے؟ کسی کو اپنے جگہ آگے کرے یا نماز توڑ  دے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر نماز کے دوران امام صاحب کی نکسیر پھوٹ جائےتو مؤذن یا قریب میں موجود دین دار  اور سمجھدار مقتدی کو  ا پنی جگہ خلیفہ مقرر کرنا جائز ہے ،خلیفہ مقرر کرکے امام وضو کرکے بحیثیت مقتدی نماز میں شریک ہوجائے،البتہ اگر مؤذن یا قریب میں موجود مقتدی اس مسئلے سے واقف نہ ہوں تونماز توڑ دے ، اس کے بعد  نئے سرے سے نماز پڑھی جائے۔

خزانة المفتین میں ہے:

'الاستخلاف جائزٌ؛ لما روي عن عمر رضي الله عنه أنه سبقه الحدث في صلاته فاستخلف، وكذا عن أبي بكر رضي الله عنه".

(خزانة المفتین، کتاب الصلوة، فصل فی الاستخلاف، ص: 155، المکتبة الشاملة)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"لو كان الماء في المسجد فإنه يتوضأ ويبني، ولا حاجة إلى ‌الاستخلاف كما ذكره الزيلعي.

وإن لم يكن في المسجد فالأفضل ‌الاستخلاف كما في المستصفى: وظاهر المتون أن ‌الاستخلاف أفضل في حق الكل، فما في شرح المجمع لابن الملك من أنه يجب على الإمام ‌الاستخلاف صيانة لصلاة القوم فيه نظر بحر. وقد يجاب عنه بما في النهر، من أنه ينبغي وجوبه عند ضيق الوقت".

(کتاب الصلوة، باب الاستخلاف، 1/ 601، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں