ایک مسئلہ ہے کہ یہاں گاؤں میں تین بھائیوں نے مشترکہ طور پر ایک قطعۂ زمین مسجد کے لیے وقف کردیا تھا، اس میں محلے کا ایک شخص امام بنا جو مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ اکھٹا کرنے اور تعمیراتی کام میں بہت محنت کیا کرتا تھا، اُس نے اس مسجد میں کئی سالوں تک امامت کی ہےجو کہ لوگوں کے چندہ ہی پر تعمیر ہوئی ہے، تینوں بھائی اب وفات پا چکے ہیں۔حال ہی میں واقفان میں سے ایک بھائی کاپوتا ایک مدرسہ سےتحصیلِ علم کرکے عالم بن گیاہے۔ اس ایک بھائی کے ورثاء چاہتے ہیں کہ چوں کہ یہ زمین ہم نے وقف کی تھی؛ اس لیے اس میں ہمارا بندہ امام ہونا چاہیے اورسابقہ امام امامت چھوڑ کر چلا جائے، اس تنازع کےکھڑے ہونے کے بعد محلے کے تقریبًا سارے لوگ سابقہ امام کے طرف دار ہوگئے اور انہوں نے تحریرًا اپنے دستخطوں کے ذریعےبھی اس کا اظہار کیا ہے کہ ہم سارے محلے والے اپنے سابقہ امام کو چاہتے ہیں۔ نئے عالم کے لوگ اپنی بات پر اس لیے زور دے رہے ہیں کہ مسجد کی زمین اُن کی وقف کردہ ہے، حالانکہ اس ایک بھائی کے ورثاء کے علاوہ دوسرے دو بھائیوں (واقفان )کے ورثاء اِس کے حق میں نہیں ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ سابقہ امام بحال رہے۔ لہذا شرعی لحاظ سے دریں مسئلہ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ سابقہ امام کو محض مذکورہ بالا بات پر معزول کیا جائے یا نہیں؟
واضح رہے کہ واقف ،بانی مسجد کو مسجد کا انتظام وانصرام سنبھالنے اورامام کے مقرر کرنے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے لیکن کوئی امام مقرر کرلیا جاتا ہے توجب تک امام اپنے فرائض صحیح طور پر انجام دیتا رہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے، جو امامت کے خلاف نہ ہوتو اسے معزول کرنا شرعاًدرست نہیں ،متولی کا بیٹا یا پوتا وغیرہ عالم دین بن جانے سے مقررکردہ امام کی اہلیت ختم نہیں ہوتی ،لہذا اس بنیاد پر قابل امام کو معزول کرنے کا اختیار متولی یا ان کی اولاد کو حاصل نہیں ہے، بالخصوص جب متولی کے تینوں بیٹوں میں سے دو بیٹے امام سے مطمئن ہوں ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"الأذان و الإقامة لباني المسجد مطلقًا وكذا الإمامة لو عدلًا ... الدر ... (قوله: مطلقًا) أي عدلًا أو لا. و في الأشباه: ولد الباني و عشيرته أولى من غيرهم اهـ و سيجيء في الوقف أن القوم إذا عينوا مؤذنًا و إمامًا و كان أصلح مما نصبه الباني فهو أولى.»
(باب الأذان ، ج :1 ، ص : 400 ، ط : دار الفکر)
وفیه أیضاً:
"(الباني) للمسجد (أولى) من القوم (بنصب الإمام والمؤذن في المختار إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه) الباني ... قوله: (الباني أولى) وكذا ولده وعشيرته أولى من غيرهم أشباه."
(مطلب فيمن باع دارا ثم ادعى أنها وقف ، ج : 4 ، ص : 430 ، ط : دارالفكر)
وفیه أیضاً:
"فإن اختلفوا اعتبر أكثرهم؛ و لو قدموا غير الأولى أساءوا بلا إثم، (و) اعلم أن (صاحب البيت) و مثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقًا."
(باب الإمامة ، ج : 1 ، ص : 559 ، ط : دار الفکر)
و فیه أیضاً:
"قال في البحر: و استفيد من عدم صحة عزل الناظر بلا جنحة عدمها لصاحب وظيفة في وقف بغير جنحة و عدم أهلية."
(کتاب الوقف ، ج : 4 ، ص : 382 ، ط : سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"رجلان في الفقه والصلاح سواء إلا أن أحدهما أقرأ فقدم أهل المسجد غير الأقرإ فقد أساءوا وإن اختار بعضهم الأقرأ واختار بعضهم غيره فالعبرة للأكثر، كذا في السراج الوهاج."
(الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره ، ج : 1 ، ص : 84 ، ط : دار الفکر)
کفایت المفتی میں ہے :
"اگر کوئی وجہ کراہت شرعی موجود ہو جب تو لوگوں کو اختیار ہےبلکہ مناسب یہی ہے کہ اس کو علیحدہ کرکے دوسرا امام مقرر کرلیں اور اگر اختلاف کا باعث صرف نفسانیت ہے ،تو دوسروں لوگو ں کو ایسا کرنا نا جائز ہے ۔"
(کتاب الصلاۃ ، ج : 3 ، ص : 74 ،75 ، ط : دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100511
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن