1۔اس زمانہ میں امام مسجد کی تنخواہ کتنی ہونی چاہئے ؟
2۔مسجد میں کمیٹی تشکیل دینے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟کس طرح لوگ کمیٹی کا حصہ بن سکتے ہیں ؟اور اس کے لئے ووٹنگ یا مشورہ یا قرعہ اندازی کا کیا طریقہ ہے ؟
1۔معاشرے میں مساجد اور ائمہ دونوں کا کردار نہایت اہم رہاہے، مساجد کے ذریعہ معاشرے کو صحیح رخ پر ڈھالنے کی ذمہ داری ائمہ نے سرانجام دی، منصبِ امامت ،پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے،بلکہ یہ دینِ اسلام کا ایک بہت بڑا معزز اور اہم منصب ہے،اس عظیم منصب کے حامل حضرات کے ساتھ انتہائی اعزاز و احترام کا معاملہ کرنا چاہیے،ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھنا چاہیے،کیوں کہ امام نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے،اللہ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد و ایلچی ہے، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین و تذلیل ہے۔ اسی طرح امام کی ضروریات،اس کی علمی قابلیت،تقوی وطہارت اور صلاح کوسامنے رکھتے ہوئے حالات کے مناسب تنخواہ مقرر کرنی چاہیے،کہ وہ یکسوئی کے ساتھ دین کے کاموں میں مشغول ہو۔
اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ فتاوی رحیمیہ میں لکھتے ہیں :
’’ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں ، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے ، پیشہ ورملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے ، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام، وقار، عزت اور عظمت کی حفاظت ضروری ہے۔۔۔امام مسجد اگر حقیقتاًضرورت مند اور معقول مشاہرہ کے بغیر اس کا گذر بسر مشکل ہورہا ہو تو مناسب انداز سے متولیان مسجد اور محلہ کے با اثر لوگوں کے سامنے اپنا مطالبہ بھی پیش کرسکتا ہے اور ذمہ داران مساجد اور بااثر لوگوں پر ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے ، اس صورت میں اماموں کو ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے منصب امامت کی توہین لازم آتی ہو ہرگز جائز نہ ہوگا، امام منصب امامت کے وقار عظمت اور قدرو قیمت کا محافظ اور امین ہے، ایسا طریقہ جس سے منصب امامت کی تذلیل تنقیص لازم آتی ہو ہر گز اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی .....الخ ۔
فقط واللہ اعلم بالصواب ۔احقر الا نام سید عبدالرحیم لا جپوری ثم راندیری غفرلہ‘ ۱ شوال المکرم۱۴۱۵ھ۔‘‘
(فتاوی رحیمیہ 9/292دارالاشاعت)
"ويجب على الإمام أن يتقي الله تعالى ويصرف إلى كل مستحق قدر حاجته من غير زيادة فإن قصر في ذلك كان الله تعالى عليه حسيبا. اهـ. وفي البحر عن القنية: كان أبو بكر - رضي الله تعالى عنه - يسوي في العطاء من بيت المال، وكان عمر - رضي الله تعالى عنه - يعطيهم على قدر الحاجة والفقه والفضل، والأخذ بهذا في زماننا أحسن فتعتبر الأمور الثلاثة اهـ أي فله أن يعطي الأحوج أكثر من غير الأحوج، وكذا الأفقه والأفضل أكثر من غيرهما وظاهره أنه لا تراعى الحاجة في الأفقه والأفضل، وإلا فلا فائدة في ذكرهما، ويؤيده أن عمر - رضي الله تعالى عنه - كان يعطي من كان له زيادة فضيلة، من علم، أو نسب أو نحوه ذلك أكثر من غيره، وفي البحر أيضا عن المحيط والرأي إلى الإمام من تفضيل وتسوية من غير أن يميل في ذلك إلى هوى، وفيه عن القنية وللإمام الخيار في المنع والإعطاء في الحكم. اهـ."
(کتاب الجهاد، باب العشر والخراج والجزية، ج: 4، ص: 219، سعيد)
2۔واضح رہے کہ مسجد کا انتظام شرعاً مسجد کے متولی کےذمہ ہے ،اور مسجد کا متولی بننے کا حق دار سب سے پہلے وہ شخص ہے، جس نے مسجد کےلئے زمین وقف کی ہو، اور مسجد بنائی ہو، اس کے بعد وہ شخص مسجد کا متولی بننے کا حقدار ہے، جسے واقف اور بانی متولی بنائے۔
پھر متولی ِمسجد اپنی صوابدید پر مسجد کے متفرق معاملات کے انتطام کے لئے جس کو چاہے، اپنے ساتھ شامل کرسکتا ہے، اور ایک کمیٹی / انتظامیہ بناسکتاہے۔
مسجد کی کمیٹی میں ایسےلوگ ہونے چاہییں، جو دین دار، امانت دار اورمسجد کے انتظامی معاملات کو سمجھنے اور چلانے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہوں،لہذا متولی ِ مسجد کی ذمہ داری ہے کہ مسجد کی کمیٹی کے لیے مذکورہ اوصاف کے حامل افراد کا انتخاب کرے، اور ایسے لوگوں کو جونہ خود دین کے پابند ہوں اور نہ دینی جذبہ رکھتے ہوں یا ان کے اندر انتظامی امور کو چلانے کی صلاحیت نہ ہو،یا امانت دار نہ ہوں ،مسجد کی کمیٹی کا ممبر منتخب نہ کیا جائے ۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"رجل بنى مسجدا وجعله لله تعالى فهو أحق الناس بمرمته وعمارته وبسط البواري والحصر والقناديل، والأذان والإقامة والإمامة إن كان أهلا لذلك فإن لم يكن فالرأي في ذلك إليه. كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الصلاة، الباب الثامن في الوتر، ج:1، ص:110، ط: دار الفكر)
المحيط البرهانی فی الفقہ النعمانی میں ہے:
"ذكر هلال رحمه الله: إذا وقف الرجل أرضه، ولم يشترط الولاية لنفسه ولا لغيره إن الوقف جائز والولاية للواقف، وهكذا ذكر الخصاف في وقفه. قال هلال: وقد قال قوم: إن الواقف لو شرط الولاية لنفسه كانت الولاية له، وإن لم يشترط فلا ولاية له، قال مشايخنا: الأشبه أن يكون هذا قول محمد؛ لأن من أصله أن التسليم إلى القيم شرط صحة الوقف، فإذا سلم لا يبقى له ولاية، وجه هذا القول: أن ولايته كانت بحكم الملك وبالوقف أزال ملكه فتزول ولايته، وجه ما ذكر هلال: أن الواقف أقرب الناس إلى هذا الوقف فيكون أولى بولايته، ألا ترى أن المعتق أولى الناس بالمعتق؛ لأنه أقرب إليه."
(ص:134، ج:6، کتاب الوقف، الفصل السادس فی الولاية للوقف، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وينزع) وجوبا بزازية (لو) الواقف درر فغيره بالأولى (غير مأمون) أو عاجزا أوظهر به فسق كشرب خمر ونحوه فتح
(قوله: غير مأمون إلخ) قال في الإسعاف: ولا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه لأن الولاية مقيدة بشرط النظر وليس من النظر تولية الخائن لأنه يخل بالمقصود، وكذا تولية العاجز لأن المقصود لا يحصل به....والظاهر: أنها شرائط الأولوية لا شرائط الصحة وأن الناظر إذا فسق استحق العزل ولا ينعزل كالقاضي إذا فسق لا ينعزل على الصحيح المفتى به."
(کتاب الوقف ج:4ص:380، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102477
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن