بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف ذکر بالجہر کو بدعت ہونے کی نسبت کرنا


سوال

بہت سی جگہوں پر سناہےکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ذکر بالجہر بدعت ہے ،کیا یہ واقعی ایساہے؟

جواب

واضح رہےکہ ذکر چاہے سرا ہو یا جہرا دونوں باعث ثواب و فضیلت ہیں ،اما م ابوحنیفہ  رحمہ اللہ کی طرف جو نسبت کی جاتی ہے کہ ذکر بالجہر بدعت ہے ،یہ نسبت مطلقا درست نہیں ،امام صاحب نے ذکر بالجہر کو جو بدعت قرار دیا ہے ،وہ مخصوص مقام میں  اس التزام کے ساتھ جہر کرنا ہے جو شریعت میں منقول نہیں۔جیسا کہ  عید الفطر کے لیے جاتے ہوئے راستہ میں تکبیرات کے جہراپڑھنے سے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس موقع پر تکبیرات جہرا پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،تکبیرات جہرا پڑھنا صرف عید الاضحی کی نماز کے لیے جاتے ہوئے  ثابت ہے لہذا عید الفطر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے راستہ میں سراً  ہی تکبیرات پڑھی جائیں گی ،اس موقع پر جہرا تکبیرات پڑھنا بدعت ہے۔

نیز  احناف کا محقق قول ذکر جہری کے بارے میں یہ ہے کہ اگر ذکر جہرا کرنے سے کسی کو  تکلیف نہ ہو   مثلا نمازی ،تلاوت یا ذکر و اذکار کرنے والے کو خلل نہ ہو اور جہرا ذکر کرنے کو  قربت مقصودہ نہ سمجھاجائے  ،محض اصلاح  کی نیت سے شیخ مرید کے لیے ذکر جہری تجویز کریں تو اس کی اجازت ہے ۔

وفي "سباحة الفكر في الجهر بالذكر" :

"ومن قال:إنه بدعة أراد به أن إيقاعه علي وجه مخصوص والتزام ملتزم  لم يعهد في الشرع، بدليل أنهم أطلقوا البدعة عليه في بحث التكبير في طريق صلاة عيد الفطر و قالوا الجهر به في الطريق علي الوجه المخصوص إنما ورد في عيد الأضحي وأمافي عيد الفطر فهو بدعة."

(ص:173 ط:الطبوعات الإسلامية بحلب)

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

’’سوال:ذکر جہر کرنا قرآن حدیث سے ثابت ہے یا صوفیہ کرام نے اپنی طرف سے مقرر کرلیا ،زید کہتاہے کہ ذکر جہرامام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک بدعت ہے ،عمرو کہتاہے کہ جب ذکر جہر امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک بدعت ٹھہرا تو بڑے بڑے حنفی اس ذکر کرنے کی کیوں اجازت دیتے ہیں،مفتی بہ کس طور پر ہے ؟

جواب:ذکر جہر اور خفی دونوں حدیث سے جائز معلوم ہوتے ہیں ۔امام صاحب نے جہر کو  بدعت اس موقع پر فرمایا ہے جہاں ذکر کا موقع ہے ،آپ علیہ الصلوۃ سے وہاں جہر ثابت نہیں ،جیسا عید الفطر کی نماز کو جاتے ہیں اور مطلقا ذکر جہر کومنع نہیں فرما یا ذکر ہرطرح درست ہےفقط۔‘‘

(فتاوی رشیدیہ ،کتاب  :ذکر و دعا آداب قرآن و تعویذ کے مسائل ،ص:610،ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101379

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں