بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

علم طب کے طالب علم کے لئے علاج کرنے کا حکم / نیم حکیم کے علاج کے بعد مریض کی موت ہوجانا


سوال

میں چار سالہ حکمت کا کورس کررہا ہوں تین سال ہوچکے ہیں ایک سال باقی ہے اس درمیان میں نے کئی لوگوں کا علاج کیا اور الحمدللہ شفاء ہوتی رہی۔

ایک دن میرے دوست نے اپنی ساس کا مجھ سے علاج کرایا کچھ دن تک تو معاملہ ٹھیک رہا اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

اب میرے بڑے تعلیم یافتہ استاد نے کہا کہ آپ کی دوائی کا غلط اثر ہوا، مذکورہ دوائی اس بیماری میں نہیں دی جاتی۔

میں نے تو اچھی نیت سے دوائی دی تھی اور علاج بھی فی سبیل اللہ کرتا ہوں۔

اب میرے لئے کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے دوست کے اگر علم میں تھا کہ سائل اب تک زیر تعلیم ہے، اور اسے کسی کے علاج کی اجازت نہیں ہے، اس کے باوجود  اس نے اپنی ساس کا علاج کروایا ہو، اور دوائی سائل نے مریضہ کو اپنے ہاتھوں سے نہ پلائی ہو ، تو اس صورت میں سائل پر کوئی ضمان واجب نہ ہوگا، البتہ اگر سائل کا مذکورہ دوست بذریعہ عدالت کوئی تعزیری سزا اسے دلوانا چاہے، تو شرعا ایسا کرنے کا اسے حق ہوگا ،( مزید یہ کہ توبہ استغفار بھی کرے)

پس سائل کی جب تک تعلیم  و تربیت مکمل  نہ ہوجائے، اور اسے اساتذہ و ماہر اطباء کی جانب سے علاج کرنے کی اجازت نہ مل جائے، اس وقت تک کسی کا علاج نہ کرے۔

احسن الفتاوی میں ہے:

سوال:

طبیب یا ڈاکٹر کے علاج سے اگر کوئی مرجائے یا اس کا کوئی عضو تلف ہوجائے تو طبیب یا ڈاکٹر پر ضمان واجب ہوگا یا نہیں؟

جواب:

طبیب کی دو قسمیں ہیں:

۱۔حاذق۔ ۲۔جاہل

طبیب حاذق کا حکم:

اس کے لئے علاج کرنا جائز ہے اور اس سے رفع ضمان کے لئے دو شرائط ہیں:

۱۔ مریض یا اس کے ولی نے علاج کی اجازت دی ہو۔

۲۔ علاج اصول طبیہ کے مطابق ہو۔

اگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہو اور مریض کا نقصان ہوجائے تو ضمان واجب ہے۔

اگر بلا اذن علاج کیا تو پورا ضمان واجب ہے اور اذن سے کیا تو اس میں یہ تفصیل ہے:

۱۔ علاج کا پورا طریقہ اور عمل اصول طبیہ کے خلاف ہو تو:

اس صورت میں اگر مریض ہلاک ہوگیا تو پوری دیت لازم ہوگی اور اگر کوئی عضو تلف ہوگیا تو بحسب تفصیل فقہاء رحمہم اللہ تعالی ضمان واجب ہوگا۔

۲۔ کچھ عمل اصول طبیہ کے مطابق کیا اور کچھ اس کے خلاف تو:

اس صورت میں مریض ہلاک ہوگیا تو نصف دیت واجب ہوگی، اور اگر عضو تلف ہوگیا تو پورا ضمان واجب ہوگا، اور اگر عضو میں نقصان آیا تو موضع معتاد سے تجاوز کی وجہ سے جو نقصان ہوا اسی کی بقدر ضمان آئے گا۔

طبیب جاہل کا حکم:

اس کے لئے علاج کرنا جائز نہیں اور بہرصورت پورا ضمان واجب ہوگا، خواہ اصول طبیہ کے مطابق علاج کرے یا ان کے خلاف، مریض یا اس کے ولی کی اجازت سے علاج کرے یا بلا اجازت۔

تنبیہ:

وجوب ضمان اس صورت میں ہے کہ علاج میں ڈاکٹر یا طبیب کا اپنا ہاتھ استعمال ہوا ہو، مثلا آپریشن کیا ہو یا انجیکشن لگایا ہو یا اپنے ہاتھ سے دواء پلائی ہو، اگر دواء بنا کر یا لکھ کر مریض کو دے دی، مریض نے خود اپنے ہاتھ سے دواء پی تو ضمان واجب نہ ہوگا۔

البتہ تعزیر بہر صورت واجب ہے۔

( کتاب الجنایة والضمان، ٨ / ٥١٧ - ٥١٨، ط: سعید)

سنن ابی داود میں ہے:

٤٥٨٦ - حدثنا نصر بن عاصم الأنطاكي ومحمد بن الصباح بن سفيان، أن الوليد بن مسلم أخبرهم، عن ابن جريج، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه

عن جده، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من تطبب ولم يعلم منه طب فهو ضامن"

( كتاب الديات، باب فيمن تطبب بغير علم فأعنت، ٦ / ٦٤٣، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو طب نہ جانتا ہو اور علاج کرے تو وہ (مریض کا) ضامن ہو گا"۔

و فیہ ایضا:

٤٥٨٧ - حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا حفص، حدثنا عبد العزيز بن عمر ابن عبد العزيز حدثني بعض الوفد الذين قدموا على أبي، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: "أيما طبيب تطبب على قوم لا يعرف له تطبب قبل ذلك فأعنت، فهو ضامن".

قال عبد العزيز: أما إنه ليس بالنعت إنما هو قطع العروق، والبط، والكي.

( كتاب الديات، باب فيمن تطبب بغير علم فأعنت، ٦ / ٦٤٤، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:

عبد العزیز بن عمر بن عبد العزیز کہتے ہیں میرے والد کے پاس آنے والوں میں سے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی قوم میں طبیب بن بیٹھے، حالانکہ اس سے پہلے اس کی طب دانی معروف نہ ہو اور مریض کا مرض بگڑ جائے اور اس کو نقصان لاحق ہو جائے تو وہ اس کا ضامن ہو گا"۔ 

عبد العزیز کہتے ہیں: "اعنت؛ نعت"  سے نہیں، بلکہ "عنت" سے ہے جس کے معنی: رگ کاٹنے، زخم چیرنے یا داغنے کے ہیں۔

حاشية السندي على سنن ابن ماجه میں ہے:

"قوله: (من تطبب) أي: تكلف في الطب فهو ضامن لما تلف بفعله قال الموفق إن من تعاطى فعل الطب ولم يتقدم له بذلك سابقة تجربة فتلف فهو ضامن".

( كتاب الطب، باب من تطبب ولم يعلم منه طب، ٢ / ٣٤٨، ط: دار الجيل)

معالم السنن للخطابي میں ہے:

"قال الشيخ: لا أعلم خلافا في المعالج إذا تعدى فتلف المريض كان ضامنا والمتعاطي علما أو عملا لا يعرفه متعدي، فإذا تولد من فعله التلف ضمن الدية وسقط عنه القود لأنه لا يستبد بذلك دون إذن المريض، وجناية الطبيب في قول عامة الفقهاء على عاقلته".

( كتاب الديات، ومن باب فيمن تطبب ولا يعلم منه طب، ٤ / ٣٩، ط: المطبعة العلمية - حلب)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود میں ہے:

" (قال عبد العزيز) أي الراوي المذكور (أما إنه ليس بالنعت) أي حكم الضمان ليس بالوصف باللسان، وكذا حكم الكتابة، فإنه إذا وصف الدواء لإنسان فعمل بالمريض فهلك لا يلزم الطبيب الدية (إنما هو) أي حكم الضمان (قطع العروق والبط) أي الشق (والكي) بالنار". 

( كتاب الديات، باب فيمن تطبب بغير علم فأعنت، ١٢ / ٦٩٢، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"٣٥٠٤ - وعن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( «من تطبب ولم يعلم منه طب فهو ضامن» ) . رواه أبو داود والنسائي

قال: (من تطبب) : بتشديد الموحدة الأولى أي تعاطى علم الطب وعالج مريضا (ولم يعلم منه طب) : أي معالجة صحيحة غالبة على الخطأ فأخطأ في طبه وأتلف شيئا من المريض (فهو ضامن) : قال بعض علمائنا من الشرح: لأنه تولد من فعله الهلاك وهو متعد فيه، إذ لا يعرف ذلك فتكون جنايته مضمونة على عاقلته. وقال ابن الملك قوله: لم يعلم منه طب أي لم يكن مشهورا به فمات المريض من فعله، فهو ضامن أي تضمن عاقلته الدية اتفاقا ولا قود عليه، لأنه لا يستبد بذلك دون إذن المريض فيكون حكمه حكم الخطأ. وقال الخطابي: لا أعلم خلافا في أن المعالج إذا تعدى فتلف المريض كان ضامنا. وجناية الطبيب عند عامة الفقهاء على العاقلة".

( كتاب الديات، ٦ / ٢٢٩٣، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان) 

زاد المعاد في هدي خير العباد لابن القيم میں ہے:

"[الثاني مطبب جاهل باشرت يده من يطبه فتلف به]

فصل القسم الثاني: مطبب جاهل باشرت يده من يطبه، فتلف به، فهذا إن علم المجني عليه أنه جاهل لا علم له، وأذن له في طبه لم يضمن، ولا تخالف هذه الصورة ظاهر الحديث، فإن السياق وقوة الكلام يدل على أنه غر العليل، وأوهمه أنه طبيب، وليس كذلك، وإن ظن المريض أنه طبيب، وأذن له في طبه لأجل معرفته، ضمن الطبيب ما جنت يده، وكذلك إن وصف له دواء يستعمله، والعليل يظن أنه وصفه لمعرفته وحذقه فتلف به، ضمنه، والحديث ظاهر فيه أو صريح".

( أقسام الأطباء من جهة إتلاف الأعضاء، ٤ / ١٢٩، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100045

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں