بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علاج پر لوگوں کا طعنے دینا


سوال

میری بیٹی پچھلے گیارہ مہینے سے ہسپتال میں ہے ،اس کو بہت پیچیدہ جینیٹک  مسئلہ ہے،  جس کی وجہ سے میری بیٹی کے  دل کے چار آپریشن ہو چکے ہیں ، اَن پڑھ رشتہ داروں کو میڈیکلی سمجھانا بہت مشکل ہے کہ میری بیٹی کو کیا ہوا ہے، رشتہ داروں کی طرف سے یہ کہنا ہے کہ میری نیت ٹھیک نہیں ہے؛ اس لیے  میری بیٹی بیمار ہے ، کچھ تو اولاد کو فتنہ ہونے کی دلیل بھی دیتے ہیں ، یا میں کوئی بہت بڑا گناہ گار ہوں اس لیے، اب ایسی باتیں سن کر میں خود بھی اضطراب اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہا ہوں ، کیا اولاد کا بیمار ہونا ہر دفعہ آزمائش ، سزا ہی ہے ؟  اسلام اس کو کس طرح بیان کرتا ہے ؟  انسان دنیا میں آتاہے  تو بیمار بھی تو ہوتا ، اس کی شفا تو الله نے ہی دینی  ہے، ہم میڈیکلی علاج کروا سکتے  ہیں، وہ تو ہر کوئی کرواتا ہے ، پھر یہ ایسی باتیں مسلمان گھرانوں اور معاشرے میں کیسے گھر کر گئیں  کہ کسی  کی بیماری دیکھ کر کچھ بھی فیصلہ سنا دیا جاتا ہے؟ اس پر روشنی ڈالیں !

جواب

صورتِ مسئولہ  میں آپ کے رشتے داروں کا آپ کو اس قسم کے طعنے دینا کہ آپ کی نیت کی وجہ سے آپ کی بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو  رہی ہے، انتہائی نازیبا حرکت ہے، اور اِسلامی تعلیمات سے ناواقفیت اور دوری کا نتیجہ ہے۔  کوئی بھی باپ یہ نہ چاہے گا کہ اس کی اولاد بیمار  رہے۔ نیز بیماری اور صحت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، ضروری نہیں کہ یہ گناہوں کی وجہ سے ہی ہو، انبیاءِ کرام علیہم السلام بھی بیمار ہوتے تھے، انہیں بھی ستایا گیا، اور ظاہری تکلیفیں ان پر بھی آئی ہیں، بلکہ دنیاوی تکالیف کے نتیجے میں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع بڑھ جائے اور آدمی گناہوں پر استغفار کرتا رہے تو یہ اس کے ایمان کے مضبوط ہونے کی علامت ہے، حدیث شریف میں ہے کہ آدمی کو اس کے دین کی مضبوطی کے بقدر آزمایا جاتاہے، جو دین میں جتنا مضبوط ہوتاہے اس کی آزمائش اتنی سخت ہوتی ہے۔  تاہم آزمائش اور تکلیف مانگنی نہیں چاہیے، ہمیشہ عافیت کا سوال کرنا چاہیے؛ لہٰذا ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بچی کو شفاءِ کامل عاجل عطا فرمائے، اور اسے آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے! آمین!

آپ کو ان کی ان باتوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں پر آزمائش ڈالتے ہیں؛  تاکہ ان کے نیک بندے اللہ تعالی سے اور قریب ہوجائیں اور اگر ان کے  کیے ہوئے کچھ گناہ ہوں تو اللہ تعالی ان کو معاف فرما دے، نیز علاج کرانا سنت ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے:

"تداووا؛ فإن الله لم یضع داء إلا وضع له شفاءًا". (مشکاة المصابیح مع المرقاة: ٨/ ٣٤١)

یعنی علاج معالجہ کیا کرو ؛کیوں کہ اللہ تعالی نے ہر بیماری سے شفا کے اسباب بھی رکھے ہیں۔ نیز خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف امراض کے علاج کی تدبیریں بتائی ہیں اور مختلف مواقع پر خود بھی علاج کے اسباب اختیار فرمائے ہیں۔  لیکن علاج میں  بھی جس قدر استطاعت ہو اتنے ہی اسباب اختیار کرنے  چاہییں، باقی تو اللہ تعالی کا حکم ہے، اس پر راضی رہنا  چاہیے۔

لہذا آپ ان رشتہ داروں کی ان باتوں پر بالکل بھی توجہ نہ دیں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ اللہ تعالی بیٹی کو کامل شفا عطا فرمائے، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق مزید مضبوط کریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں