بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

الیکشن کے موقع پر پیسے لینے کا حکم


سوال

 الیکشن کے موقع پر پیسے دیتے ہیں ،اس کا لینا کیسا ہے؟ یہ پیسے لے کر غریبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ الیکشن عوام کا سیاسی نمائندہ منتخب کرنے کے لیےرائےشماری   ہوتی ہے،یہ رائےدہی ایک امانت ہے،جو کہ وہ بغیر کسی جبر واکراہ کے  اپنی صوابدید پرکسی قابل اور امانت دار  نمائندہ کے انتخاب کے لیے استعمال کرے،اگر کوئی جبر سے یا کسی اور طریقہ سے اس کی رائے تبدیل کرانے کی کوشش کرے ،اور اس کے لیے پیسے دے تویہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے ،لہذا الیکشن کے  موقع پر کسی امید وار سے کسی بھی نام پر پیسے لینا بظاہر اپنا ووٹ اس کے حق میں دینے کا عوض ہوگا،جو کہ رشوت ہے ،اور اس رقم کا لینا  حرام ہے،خواہ غریبوں میں ہی کیوں تقسیم نہ کرے ۔

فتح القدیر میں ہے :

"‌بخلاف ‌الشهادة ‌فإنها ‌فرض يجب على الشاهد أداؤها فلا يجوز فيها التعاوض أصلا."

(کتاب الوکالۃ،ج:8،ص:3،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌وفي ‌المصباح ‌الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد."

(کتاب القضاء،مطلب فی الکلام علی الرشوۃ،ج:5،ص:342،سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله كما بسطه الزيلعي) حيث قال لأنه كالمغصوب وقال في النهاية: قال بعض مشايخنا: كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه، وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ لكن في الهندية عن المنتقى عن محمد في كسب النائحة، وصاحب طبل أو مزمار، لو أخذ بلا شرط، ودفعه المالك برضاه فهو حلال ومثله في المواهب وفي التتارخانية وما جمع السائل من المال فهو خبيث."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:6،ص:385،ط:سعید)

کفایت المفتی میں ہے :

"ووٹ کی قیمت لینا  اور اس کو مسجد میں صرف کرنا جائز نہیں "

سوال:زید نے ووٹ دینے کے عوض  پیسہ لینا جائز کہا ہے ،اور اس سے مسجد کی مرمت کرنا بھی جائز بتایا ہے ،رشوت کو جائز سمجھنا کفر ہے یا نہیں ؟

جواب:ووٹ کی قیمت وصول کرنا جائز نہیں ،اور ایسا روپیہ مسجد میں نہیں لگ سکتا ۔

(کتاب السیاسیات،ج:9،ص:354،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں